لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔

افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر پاکستان کے تازہ ترین فضائی حملےکے بعد دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے جاری تناؤ، سنگین تنازع کی صورت اختیار کرنے کا خطرہ ہے۔ افغان طالبان حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر بھاری ہتھیاروں سے جوابی فائرنگ کی ہے۔ اب بیان بازی سے بات آگے نکل چکی ہے۔ حالیہ حملوں کی وجہ سے پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے تعلقات مزید کشیدہ ہوچکے ہیں۔

حالیہ تنازع نے اس وقت سر اٹھایا جب گزشتہ ہفتے سرحد پار سے آپریٹ ہونے والے ایک عسکریت پسند گروہ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی چوکی کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 7 پاکستانی سپاہی شہید ہوئے۔ لگتا ہے کہ اس حملے کے بعد اسلام آباد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔

پاکستانی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سرحد پار لے جانے کے عزم کا اظہار کیا اور اگلے ہی دن افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے پر فضائی حملہ کیا گیا۔ گزشتہ دو سالوں میں اس طرح کے دہشتگرد حملوں میں 300 سے زائد سیکیورٹی اہلکار شہید ہوچکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر حملے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (جس کی قیادت افغانستان میں ہے) اور اس سے وابستہ تنظیموں کی جانب سے کیے گئے۔

جانی نقصان کے حوالے سے متضاد اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ ایک جانب جہاں پاکستان فضائی حملے میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کررہا ہے وہیں کابل کا کہنا ہے کہ حملے میں خواتین اور بچے ہلاک ہوئے۔ پاکستانی دفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ انٹیلی جنس کارروائی میں گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ دو سالوں میں ہونے والے زیادہ تر دہشت گرد حملوں میں ملوث تھے۔ گل بہادر جو طاقتور عسکریت پسند گروہوں میں سے ایک ہے، القاعدہ کے ساتھ بھی اس کا قریبی تعلق رہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں ہوگا کہ پاکستان نے افغانستان کی حدود میں فضائی حملہ کیا ہو۔ لیکن اس نے ہمیشہ تردید کرنے کی گنجائش چھوڑی ہے۔ گزشتہ سال اطلاعات موصول ہوئیں کہ پاکستان نے مبینہ طور پر ننگرہار کے علاقے سلالہ میں بمباری کی لیکن دفترِخارجہ نے ان کی تردید کی۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں موجود عسکریت پسند رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے سرحد پار سے کارروائیاں کرنے کے حوالے سے بھی کچھ اطلاعات موصول ہوئی تھیں لیکن ان حملوں کی کبھی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار پاکستان نے کھل کر دعویٰ کیا ہے کہ اس نے افغان صوبوں پکتیکا اور خوست میں فضائی حملے کیے ہیں جہاں ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کے ہزاروں ٹھکانے موجود ہیں۔ یہ عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان میں بالخصوص سیکیورٹی فورسز پر بڑھتے ہوئے دہشتگرد حملوں کی وجہ سے پاکستان کس قدر برہم ہے۔ چند افغان طالبان رہنماؤں کی جانب سے سامنے آنے والے جارحانہ بیانات نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ عوامی سطح پر انتباہ جاری کرے۔

ایک بیان میں ملا یعقوب کی سربراہی میں افغان وزارتِ دفاع نے پاکستان کو سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ، ’کسی بھی طرح کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے ملک کی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز تیار ہیں اور ہر صورت میں ملک کی علاقائی سالمیت کا دفاع کریں گے‘۔ بیان میں دونوں ممالک کو الگ کرنے والی ڈیورنڈ لائن کو ’مصنوعی‘ کہا گیا۔ افغان طالبان کے رہنما ڈیورنڈ لائن کی قانونی حیثیت پر بارہا سوالات اٹھاتے آرہے ہیں۔ لفظوں کی جنگ اسلام آباد اور کابل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق 5 سے 6 ہزار کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشتگرد افغانستان میں پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔ اگر ان کے اہل خانہ کو بھی شامل کیا جائے تو ان کی تعداد دسیوں ہزار میں ہوگی۔ ان میں سے زیادہ تر اس وقت فرار ہوگئے تھے جب 2014ء میں سابقہ قبائلی علاقوں میں پاک فوج نے آپریشن کیا تھا۔ جبکہ ان میں سے بہت سے لوگ افغان طالبان کے ساتھ مل کر غیر ملکی افواج کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ٹی ٹی پی افغان طالبان کا حصہ بن چکی ہے اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ امریکی جنگ کا اختتام اور طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان نے دہشت گرد حملوں کے لیے براہِ راست افغان طالبان کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز پر تازہ ترین دہشت گرد حملے کے بعد آئی ایس پی آر نے بیان جاری کیا کہ ’افغان حکومت نہ صرف دہشتگردوں کو مسلح کررہی ہے بلکہ پاکستان پر حملوں میں ملوث دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کررہی ہے‘۔

پاکستان نے چند افغان طالبان کمانڈرز کی جانب سے ٹی ٹی پی کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک سنگین صورت حال ہے۔ اس حوالے سے مضبوط شواہد موجود ہیں کہ سرحد پار حملوں میں ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان طالبان بھی ملوث ہیں۔ گزشتہ سال سیکڑوں عسکریت پسندوں نے سرحد پار کرکے چترال میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ پاکستان میں سیکیورٹی فورسز کے لیے بنیادی تشویش یہ تھی کہ ان حملوں میں مسلح افراد کی جانب سے جن ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا وہ نیٹو اور سابق افغان آرمی کی جانب سے چھوڑے جانے والے جدید ہتھیار تھے۔

تعلقات اور نظریاتی مماثلت کے اعتبار سے افغان طالبان حکومت اپنے ساتھی جہادیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔ اس کے بجائے وہ زور دیتے ہیں کہ اسلام آباد اس گروہ کے ساتھ امن قائم کرے جوکہ ہزاروں پاکستانیوں کی جانیں لینے کے ذمہ دار ہیں۔ سفارتی کوششیں ناکام ہونے کے بعد افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کی سرپرستی سے دستبرداری پر آمادہ کرنے کے لیے بلاشبہ پاکستان کے پاس چند آپشنز موجود ہیں۔

فوجی کارروائیوں کے آپشن کے علاقائی امن پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ ملک کی داخلی اور خارجی سیکیورٹی کے لیے تباہ کُن ثابت ہوگا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیں افغان طالبان پر دباؤ بنائے رکھنا چاہیے لیکن ساتھ ہی ہمیں سفارتی کوششوں کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں۔ جلدبازی میں ردعمل دینے کے بجائے ہمیں عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی نے پاکستان میں دہشت گرد حملوں کے نئے دور میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم پاکستان کی طرف سے مربوط حکمت عملی کی عدم موجودگی نے ٹی ٹی پی کو سابقہ قبائلی علاقوں میں دوبارہ قدم جمانے کا موقع فراہم کیا، جیسا کہ امن و امان کی حالیہ صورتحال سے واضح ہے۔ درحقیقت خوشامد کی پالیسی ایک بار پھر ہمارے لیے مسائل پیدا کرے گی۔

رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی کے انتہا پسند متعدد سرحدی اضلاع میں واپس آگئے ہیں اور اپنی سیکیورٹی چوکیاں بھی قائم کرچکے ہیں۔ یوں ہم فوجی آپریشن سے پہلے کی صورتحال کی جانب واپس جارہے ہیں۔ بلکہ شاید اس سے بھی بدتر صورتحال کا ہمیں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ عسکریت پسند اس بار زیادہ منظم دکھائی دیتے ہیں اور ان کے پاس جدید ترین ہتھیار موجود ہیں۔

پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف ہونے والے حملے جاری ہیں جوکہ ہماری صورتحال سے نمٹنے کی حکمت عملی پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی عدم استحکام نے عسکری گروہوں کو متحرک کیا ہے۔ ہمیں اپنے اندرونی معاملات ترتیب دینا ہوں گے۔ بدقسمتی سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں