موجودہ مالی سال کے پہلے 8 مہینوں میں ترقیاتی اخراجات میں مسلسل کمی کے باوجود یکے بعد دیگر حکومتیں ارکان پارلیمان کی صوابدیدی اسکیموں کے لیے فنڈز دیتی رہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پلاننگ کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ترقیاتی اخراجات کے تازہ ترین اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 8 ماہ میں اراکین پارلیمان نے اپنی ترقیاتی اسکیموں کے لیے بجٹ میں مختص کیے گئے 90 ارب روپے میں سے 38 ارب روپے استعمال کر لیے۔

جبکہ مالی سال کے پہلے 8 ماہ (جولائی تا فروری) کے دوران دیگر تمام 34 وفاقی وزارتوں کے تحت کی جانے والی ترقیاتی سرگرمیاں محض 107 ارب روپے کے مشترکہ اخراجات کے ساتھ مشکلات کا شکار رہیں۔

پورے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت 8 ماہ کے دوران کل اخراجات 237 ارب روپے رہے جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے 250.3 ارب روپے سے 13 ارب روپے کم تھے۔

اس میں کارپوریشنز، خصوصی علاقوں جیسے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور سابقہ ​​وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے ضم شدہ اضلاع پر اخراجات بھی شامل ہیں۔

خصوصی علاقوں بشمول آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور انضمام شدہ قبائلی اضلاع نے 8 ماہ میں 46.6 ارب روپے کے ساتھ سب سے زیادہ فنڈنگ ​​حاصل کی، اس کے بعد پارلیمنٹرینز اسکیم نے 37.98 ارب روپے حاصل کیے ہیں۔

خصوصی علاقوں کے لیے فنڈز ان کے بجٹ میں مختص کیے گئے 170 ارب روپے کا تقریباً 27.4 فیصد حصہ تھے، دریں اثنا ارکان پارلیمان کی اسکیموں کو پہلے ہی ان کے مختص کردہ 90 ارب روپے میں سے 42.22 فیصد فنڈز مل چکے ہیں۔

اکتوبر 2022 میں اس وقت کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حکومت نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز اچیومنٹ پروگرام (ایس اے پی) کہلانی والی اسکیموں کے لیے مختص رقم کو اس بات کو یقینی بناتے ہوئے بڑھا کر 87 ارب کردیا تھا کہ اتحاد میں شامل اس وقت کے 174 اراکین قومی اسمبلی کو چھوٹے منصوبوں جیسے سیوریج لائنیز، گیس، پانی اور بجلی کے کنکشن، اور اپنے حلقوں میں گلیوں کی مرمت کے لیے 50 کروڑ روپے ملیں۔

اسی حکومت نے بعد میں رواں مالی سال کے لیے فنڈز میں 3 ارب روپے کا اضافہ کرکے اسے 90 ارب روپے کر دیا اور اگست 2023 کے دوسرے ہفتے میں دفتر چھوڑنے سے قبل 61 ارب روپے جاری کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

جبکہ 31 اگست تک صرف 14.4 ارب روپے استعمال ہوئے تھے، یہ رقم 30 ستمبر کو پہلی سہ ماہی کے اختتام تک 22.9 ارب روپے تک پہنچ گئی اور دسمبر کے آخر تک 35 ارب روپے سے تجاوز کر گئی، جو کہ سالانہ مختص کا 39 فیصد ہے۔

جنوری 2024 میں، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) اور قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز اچیومنٹ پروگرام (ایس اے پی) فنڈز کو 61 ارب روپے تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا اور بقیہ 30 ارب روپے کو خسارے کی فنانسنگ کے لیے بچالیا۔

تقسیم کا طریقہ کار

پلاننگ ڈویژن کے اعلان کردہ تقسیم کے طریقہ کار کے تحت وفاقی بجٹ میں مختص ترقیاتی فنڈز پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں 20 فیصد کی شرح سے جاری کیے جانے چاہیے، اس کے بعد دوسری (اکتوبر تا دسمبر) اور تیسری سہ ماہی (جنوری-مارچ) میں 30 فیصد کی شرح سے جاری کیے جانے چاہیے۔

جبکہ بقیہ 20 فیصد مالی سال کی آخری سہ ماہی (اپریل-جون) میں جاری کیا جاتا ہے۔

اس اصول کے تحت اب تک خصوصی علاقوں میں ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے کم از کم 70 فیصد یا 120 ارب روپے جاری کیے جانے چاہیے تھے۔

لیکن اصل کھپت صرف 46.6 ارب روپے رہی ہے۔

اسی طرح 940 ارب روپے میں سے 658 ارب روپے پی ایس ڈی پی کے منصوبوں بشمول ڈیموں، سڑکوں اور صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں کے لیے فنڈز پر خرچ کیے جانے چاہیے تھے لیکن مجموعی اخراجات 237 ارب روپے تھا، جو کہ مالی سال کے 8 ماہ کے اختتام تک تخمینہ شدہ کھپت سے تقریباً 421 ارب روپے کم تھے۔

خصوصی علاقوں اور ارکان پارلیمان کی ترقیاتی اسکیموں کو چھوڑ کر انفراسٹرکچر اور ترقی پر صرف 152 ارب روپے خرچ ہوئے۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ایس اے پی کو چھوڑ کر، 8 ماہ میں 3 درجن وزارتوں اور ڈویژنوں کے ترقیاتی اخراجات سالانہ مختص کردہ 563 ارب کے مقابلے میں صرف 154 ارب روپے تھے۔

پانی کے شعبے میں سالانہ مختص کیے 110.5 ارب روپے کے مقابلے میں 30.5 ارب روپے خرچ کیے گئے۔

اسی طرح، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور پاور کمپنیوں نے اپنے 212 ارب روپے کے کل مختص کے مقابلے میں 44.7 ارب روپے خرچ کیے، حالانکہ ان دونوں شعبوں میں خاطر خواہ زرمبادلہ موصول ہوا تھا۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنے 60 ارب روپے کی مختص رقم میں سے صرف 14.5 ارب روپے یا 24 فیصد استعمال کر سکا، جب کہ وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے 8 ارب روپے یا 41 ارب روپے کی مختص رقم کا تقریباً 20 فیصد خرچ کیا۔

ریلوے نے 33 ارب روپے کے مقابلے میں تقریباً 18.8 ارب روپے خرچ کیے۔

اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے جنوری 2024 تک 508 ارب روپے جاری کرنے کی اجازت دی تھی، جبکہ فروری میں کوئی اضافی رقم جاری نہیں کی گئی۔

اس میں 36 وزارتوں اور ڈویژنوں کے لیے 372 ارب روپے (بشمول ارکان پارلیمان کی اسکیموں کے لیے 61.3 ارب روپے) اور این ایچ اے اور پاور کمپنیوں کے لیے 127 ارب روپے شامل ہیں۔

یہ لگاتار تیسرا سال ہو گا جب ملک کی کم مالی اعانت سے چلنے والے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پارلیمان کے مختص کردہ فنڈز میں بھی زبردست کٹوتیوں کی وجہ سے محدود رہے گی۔

پچھلے سال بڑے سیلاب سے ترقیاتی پروگرام متاثر ہوا تھا، اس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبوں کو ناکافی فنڈنگ ​​کے سنگین منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس طرح پہلے سے ہی ریکارڈ مہنگائی کا شکار لوگوں کی معیار زندگی متاثر ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں