اسلام آباد بار کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں دائر ریفرنس کو ’بے بنیاد‘ اور ’من گھڑت ’ قرار دیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

ایک روز قبل یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک سابق عہدیدار نے جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں درخواست دائر کردی۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ جسٹس محسن اختر کیانی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان 6 ججز میں شامل تھے جنہوں نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔

اسلام آباد بار کونسل کے وائس چئیرمین عادل عزیز قاضی ایڈوکیٹ نے جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف دائر ریفرنس سے متعلق رد عمل دیتے ہوئے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ دائر ریفرنس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

عادل عزیز قاضی ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے، بس یہی کہوں گا کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو، افسوس ہماری بار میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو چند پیسوں کے لیے یہ کام کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریفرنس میں جو متن لکھا گیا ہے وہ ایک من گھڑت کہانی ہے، یہ ناسور اور کالی بھیڑیں افسوس ہے کہ ہماری بار کے ممبر ہیں، ریفرنس دائر کرنے والے وکیل 17 بار بار کے الیکشن لڑے اور 200/250 لے سکے۔

عادل عزیز قاضی ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہمارے ججز میرٹ پر فیصلے کرتے ہیں اور ہمیں ان پر بھروسہ ہے، قانون اور رول اف لا کی ہر چیز کے لیے ہم کھڑے ہیں۔

’ جسٹس کیانی نے دیگر ججز کو قائل کرکے پاکستانی فورسز کے خلاف جنگ چھیڑی’

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری محمد وقاص نے جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں درخواست دائر کی تھی۔

دائر ریفرنس میں الزام لگایا کہ جسٹس محسن اختر کیانی نے منصوبہ بندی کے تحت ہائی کورٹ کے دیگر ججوں کو قائل کرکے پاکستانی فورسز کے خلاف جنگ چھیڑی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری محمد وقاص نے ایس جے سی میں دائر ریفرنس میں الزام لگایا کہ جسٹس محسن اختر کیانی نے منصوبہ بندی کے تحت ہائی کورٹ کے دیگر ججوں کو قائل کرکے افواج پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑی۔

اس میں کہا گیا کہ ’معزز جج کا اقدام نیک نیتی کی بنیاد پر نہیں ہے جبکہ ان کے خلاف پہلے ہی ایک ریفرنس دائر ہے جس کا وہ سامنا کر رہے ہیں، اس ریفرنس میں ان ساکھ اور بطور جج ان کے طرز عمل پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

ریفرنس میں ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی، آرٹیکل 209 ایس جے سی کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی صلاحیت اور طرز عمل کے بارے میں انکوائری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

واضح رہے کہ ان کے خلاف جون 2023 میں بھی ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں مبینہ طور پر جانبداری اور ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔

شکایت گزار خیبرپختونخوا بار کونسل (کے بی سی) کے وکیل مرتضیٰ قریشی نے جج کے خلاف ایک ایسے وقت میں ریفرنس دائر کیا جب پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی آئین کے آرٹیکل 209 کا جائزہ لے رہی ہے، جو کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کے خلاف تادیبی کارروائی سے متعلق ہے، کیونکہ یہ آئینی شق عملی طور پر بے کار ہو چکی ہے۔

انہوں نے جسٹس محسن اختر کیانی پر اسلام آباد کی ماتحت عدلیہ کے ججوں کی ترقی میں جانبداری کا الزام لگایا اور ریئل اسٹیٹ کے کاروبار پر بھی روشنی ڈالی جس میں جج مبینہ طور پر شیئر ہولڈر ہیں۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ جج بننے کے بعد انہوں نے ان جوڈیشل افسران کو ترقی دی جو ان کی سابقہ قانونی فرم کا حصہ تھے اور دیگر ججوں کے کیریئر کو تباہ کردیا جنہیں پہلے ڈیپوٹیشن پر اور بعد میں وفاقی دارالحکومت کی عدلیہ میں شامل کیا گیا تھا۔

شکایت گزار کا کہنا تھا کہ جج جب اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے تو انہوں نے مبینہ طور پر ان ججوں کے تبادلے کے لیے کوششیں کی جو صوبوں سے ڈیپوٹیشن پر وفاقی دارالحکومت میں کام کر رہے تھے۔

اسلام آباد کی عدلیہ کے تقریباً دو درجن ججوں نے اسلام آباد کے چیف جسٹس کے سامنے منفی کارکردگی کی جانچ کی رپورٹوں کے خلاف نمائندگیاں دائر کی ہیں، ان میں سے کچھ نے سروس ٹربیونل کے سامنے اپنی بالادستی کو چیلنج بھی کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق پہلے ہی ججوں کی شکایات کے ازالے کے لیے دو رکنی کمیٹی تشکیل دے چکے ہیں۔

شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معزز جج جوڈیشل سروس ٹربیونل کے چیئرمین ہیں اور ماتحت عدلیہ کے متاثرہ ججوں کی جانب سے دائر اپیلوں کو نمٹانے میں تاخیر کر رہے ہیں۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ جج نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کی مالیت 5 سے 6 کروڑ روپے ظاہر کی جبکہ ان کے اصل اثاثوں کی مالیت ایک ارب 87 کروڑ 70 لاکھ روپے ہے۔

شکایت گزار نے سپریم جوڈیشل سے درخواست کی کہ وہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ان الزامات کی باقاعدہ انکوائری کرے۔

6 ہائیکورٹ ججز کے خط کا متن

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے 25 مارچ کو ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا تھا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس وقت برطرف کر دیا گیا تھا جب ان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچز کی تشکیل اور احتساب عدالت اسلام آباد میں مقدمات کے ٹرائل میں مداخلت کرتے ہیں۔

خط کے مطابق ان الزامات کے بعد اس وقت کی وفاقی حکومت اور آرمی چیف کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف شکایات دائر کی گئی تھیں۔

اس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے تحقیقات کیے بغیر برطرف نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برترفی کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔

خط کے مطابق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے موقف کی جیت ہوئی ہے تاہم غیر قانونی برطرفی کا ازالہ ممکن نہیں، کیا اس وقت واقعی خفیہ ایجنسی کے اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے تھے؟ اس کا جواب نہیں مل سکا ہے، اگر خفیہ ایجنسی کے اہلکار واقعی عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے میں ملوث تھے تو کیسے ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

متن کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی میڈیا انٹرویوز میں خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ دہرایا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ ہم جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان تحقیقات کا دائرہ اختیار وسیع کر کے اس بات کا بھی تعین کیا جائے کہ آیا آج بھی خفیہ ایجنسی کے اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں یا نہیں۔

خط میں کہا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

خط میں لکھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بانی پی ٹی آئی کے خلاف ٹیرین وائٹ کیس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا تھا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں درخواست کو قابل سماعت قرار دیا تھا تاہم بینچ میں شامل دیگر 2 ججز کی جانب سے چیف جسٹس کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے دیا تھا۔

خط میں کہا گیا کہ جن ججز کی جانب سے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا گیا تھا ان کو خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے دوستوں اور خاندان کے افراد کے ذریعے دھمکیاں دی گئیں اور دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی۔

اس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو اس حوالے سے آگاہ کیا گیا جس پر چیف جسٹس کی جانب سے کہا گیا کہ انہوں نے خفیہ ایجنسی کے حکام سے بات کی ہے جنہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایجنسی کی جانب سے سرکاری سطح پر ججز سے کبھی رابطہ نہیں کیا جائے گا تاہم خفیہ ایجنسی کی جانب سے مداخلت جاری رہی۔

خط میں کہا گیا کہ مئی 2023 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کے بہنوئی کو مسلح افراد کی جانب سے اغوا کرلیا گیا، 24 گھنٹے بعد جب وہ رہا ہو کر واپس آیا تو اس نے بتایا کہ اغوا کاروں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ خفیہ ایجنسی کے اہلکار ہیں۔

ججز نے اپنے خط میں کہا کہ 10 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھ کر عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے آگاہ کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ اس حوالے سے توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا جائے تاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ اپنے فرائض آزادانہ اور ایگزیکٹیو اور خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر سر انجام دے سکے لیکن آج تک ایسی کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔

خط کے مطابق 19 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے ملاقات کی گئی اور عدالتی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے آگاہ کیا گیا تھا، چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ اجلاس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان اپنے دیگر ججز کے ساتھ مشاورت کے بعد ان معاملات میں مداخلت کریں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے اسی دن اس وقت کے سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے بھی ملاقات کی گئی تھی۔

خط میں کہا گیا کہ سال 2023 کی گرمیوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج اپنی سرکاری رہائش گاہ میں منتقل ہوئے، معمول کی مینٹیننس کرتے ہوئے انکشاف ہوا کہ گھر کے ڈرائنگ روم کی دیوار میں لگی لائٹ میں وڈیو کیمرہ نصب ہے جس میں سم کارڈ بھی موجود ہے، وڈیو کیمرہ ڈرائنگ روم کی فوٹیج کسی کو بھیج رہا ہے، ایسا ہی ایک کیمرہ جج کی رہائش گاہ کے ماسٹر بیڈ روم میں بھی نصب تھا، ان کیمروں سے منسلک یو ایس بی کو برآمد کیا گیا جس میں جج اور ان کے اہل خانہ کی نجی ویڈیوز موجود تھیں۔

اس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھی اس معاملے سے آگاہ کر دیا گیا تھا، آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ وہ کیمرے کس نے نصب کیے تھے اور ججز کی نجی زندگی کی ویڈیوز بنانے کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے۔

خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریلیف تو مل گیا ہے تاہم یہ کافی نہیں ہے، بطور ججز ہماری ذمہ داری بغیر کسی خوف و خطر کے آئین و قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی ہے، ججز کا کوڈ اف کنڈکٹ ان معاملات سے نمٹنے کے لیے کوئی رہنمائی فراہم نہیں کرتا، اگر کوئی جج خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے اس قسم کے اقدام کے الزامات عائد کرتا ہے تو ثبوت بھی اسے ہی فراہم کرنا ہوتے ہیں، ثبوتوں کی فراہمی سے متعلق بھی کوڈ آف کنڈکٹ رہنمائی فراہم نہیں کرتا، یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کیا جج انفرادی طور پر خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے دھمکیوں اور دباؤ کو روکنے کی کوشش کریں گے یا عدلیہ بطور ادارہ اس کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھائے گا؟

خط کے متن کے مطابق کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک انفرادی جج کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرح بہادر ہونے کی ضرورت نہیں جنہوں نے تن تنہا ایگزیکٹیو کا مقابلہ کیا، یا جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرح جنہوں نے انصاف کے حصول کے لیے طویل عرصہ جہدوجہد کی، اگر عدلیہ کی آزادی سماجی بنیادی حقوق کی حفاظت اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنے کے لیے ناگزیر ہے تو عدلیہ کی آزادی کو بچانے اور حفاظت کرنے کے لیے ایک اداری جواب کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے خط میں کہا گیا کہ ہم درخواست کرتے ہیں کہ عدالتی امور میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت اور عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کے لیے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر غور کرنے کے لیے ایک جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔

اس میں کہا گیا کہ اس طرح کا کنونشن اس بارے میں مزید معلومات فراہم کر سکتا ہے کہ آیا دیگر ہائی کورٹس کے ججوں کو اوپر بیان کیے گئے تجربات سے ملتا جلتا تجربہ ہوا ہے؟ اس طرح کی ادارہ جاتی مشاورت سے سپریم کورٹ کو اس بات پر غور کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو کس طرح بہتر طریقے سے تحفظ فراہم کیا جائے، عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے والوں کے لیے ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے اور انفرادی ججوں کے فائدے کے لیے یہ واضح کیا جائے کہ انھیں کب کیا کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں