لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔

غزہ کی پٹی میں مقیم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیل کے وحشیانہ مظالم پر مغربی مین اسٹریم میڈیا کی یکطرفہ رپورٹنگ نے اس کی معروضیت کے دعووں کو بےنقاب کیا ہے۔

حماس-اسرائیل تنازع میں سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ ایک جانب جہاں مغربی میڈیا حماس کے حملے کی کوریج زیادہ کر رہا ہے وہیں دوسری جانب غزہ میں بمباری سے ہونے والی تباہی اور ہزاروں مظلوم فلسطینیوں کی اموات جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، کو انتہائی کم کوریج دی جارہی ہے۔

اسرائیل کے جنگی جرائم کا دفاع اس جملے سے کیا جارہا ہے کہ ’اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردینے والی اس وحشیانہ بمباری کے دوران مارے جانے والے درجن سے زائد عرب صحافیوں کی ہلاکت پر بھی مغربی میڈیا کی جانب سے کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا۔ آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا یہ دوہرا رویہ چونکا دینے والا ہے۔

جہاں مغربی صحافیوں کی بڑی تعداد اسرائیل سے کوریج کررہی ہے وہیں گنتی کے صحافی غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کی فیلڈ رپورٹنگ کررہے ہیں۔ میڈیا تصویر کا ایک ہی رخ دنیا کو دکھا رہا ہے۔

اسرائیل-فلسطین تنازع کی میڈیا رپورٹنگ کا بڑا حصہ متعصبانہ طور پر صیہونی غاصبوں کی طرف داری ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے 7 اکتوبر کے واقعات کی صرف حماس کے حملے کے طور پر منظر کشی کی جارہی ہے جبکہ اس حملے کے پیچھے موجود اصل وجہ یعنیٰ فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کے پہلو کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے۔

اسرائیلی بچوں کے سر قلم کرنے کی غیرمصدقہ خبروں سے مغرب کے جذبات کو بھڑکایا گیا اور غزہ کی پٹی پر بسنے والے 22 لاکھ لوگوں کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے اس جھوٹے جواز کو استعمال کیا گیا۔ کچھ اسرائیلی رہنماؤں اور مغربی میڈیا کے تجزیہ کاروں نے حماس کے حملے کو 11 ستمبر کے حملوں سے تشبیہہ دی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دونوں جانب ہونے والی بےگناہ لوگوں کی اموات کی مذمت کی جانی چاہیے لیکن غزہ میں اس وقت جو قیامت ڈھائی جارہی ہے، ماضی قریب میں ہمیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ نوآبادیاتی قوت کی جانب سے مظلوم اور محکوم آبادی کی نسل کشی سے بدتر کوئی امر نہیں ہے۔

اپنی حالیہ رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل، غزہ اور لبنان میں اپنی عسکری کارروائیوں میں وائٹ فاسفورس کا استعمال کررہا ہے جس سے عام شہری سنگین اور دیر تک رہنے والے زخموں سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ’دنیا کی گنجان ترین آبادیوں میں سے ایک، غزہ پر وائٹ فاسفورس کے استعمال سے وہاں کی آبادی کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں جبکہ یہ شہریوں کو غیرضروری طور پر خطرے میں نہ ڈالنے کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے‘۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی حالیہ فضائی بمباری سے سیکڑوں بچے ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔ ’تصاویر اور خبروں سے صورتحال واضح ہے، بچوں پر جلنے کے خوفناک نشانات ہیں، وہ بمباری سے زخمی ہوئے ہیں اور اعضا سے محروم ہوئے ہیں‘۔ ان کیسز کی تعداد میں ہر لمحے اضافہ ہورہا ہے جبکہ اسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث وہ علاج سے بھی محروم ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والی ہر قیمتی جان، غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کی نشاندہی کرتی ہے۔

لیکن غزہ کے انسانی المیے کو نظرانداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اسرائیل کے ملٹری ایکشن کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ حقائق کو مسخ کرکے مغربی میڈیا پروپیگنڈا پھیلانے میں ان لوگوں کا آلہ کار بن رہا ہے جو جنگ کے خواہش مند ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان کی معروضی صحافت کا مقصد صرف اپنے حکمرانوں کی اسرائیلی حمایت کی غیرمبہم پالیسی کی حمایت کرنا ہے۔

گویا الیکٹرانک میڈیا پر جیسے کوئی ورچول سنسرشپ لاگو ہے اور یہاں منطقی خیالات کے لیے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کے معروف ٹی وی نیٹ ورک ایم ایس این بی سی نے مبینہ طور پر 3 مسلمان اینکرز کو معطل کردیا کیونکہ وہ غزہ میں محصور عوام کی پبتا اپنے شو کے ذریعے دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہے تھے۔ عرب نیوز کے مطابق ایک صحافی نے کہا کہ ’یہ بالکل 9 ستمبر کے بعد کا دور لگ رہا ہے کہ یا تو اس بحث میں آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے خلاف‘۔

جس طرح چند مغربی میڈیا گروپس اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں کے بےرحمانہ قتلِ عام کے خلاف مظاہروں کی رپورٹنگ کررہے ہیں، اس سے ان کی سوچ کا اندازہ ہورہا ہے۔ بی بی سی ٹی وی کی رپورٹ میں فلسطینیوں کی حمایت میں کیے جانے والے مظاہرے کو ’حماس کی حمایت میں مظاہرے‘ کے طور پر بیان کیا گیا۔ بعدازاں ادارے نے عوام کو گمراہ کرنے کا اعتراف کیا لیکن اس پر معذرت نہیں کی۔

بہت سے یورپی ممالک بشمول فرانس، جرمنی اور اٹلی نے مظاہروں پر پابندی لگادی ہے لیکن پابندی کے باوجود لوگ جنگی جرائم کا شکار ہونے والے فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکال رہے ہیں اور ان سے اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں۔ غزہ میں خراب ہوتی صورتحال سے عوام کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوگا۔

اگرچہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم پر مغربی مین اسٹریم میڈیا آنکھیں بند کیے ہوئے ہے لیکن اسرائیلی بمباری سے ہونے والی تباہی کی سوشل میڈیا اور الجزیرہ جیسے چند میڈیا نیٹ ورکس بھرپور کوریج کررہے ہیں۔ مگر اب ان پلیٹ فارمز کو بھی غزہ میں قتلِ عام کی رپورٹنگ اور تبصرے کرنے سے روکنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کی پلٹزر انعام یافتہ تحقیقاتی رپورٹر اور کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر عظمت خان نے بتایا کہ انسٹاگرام اسٹوری پر غزہ میں جنگ کے حوالے سے پوسٹ کرنے پر ان کے اکاؤنٹ کو ’شیڈوبین‘ کردیا گیا۔ وہ ایکس پر لکھتی ہیں کہ ’یہ جنگ میں معتبر صحافت اور معلومات کے تبادلے کے لیے غیرمعمولی خطرہ ہے‘۔

غزہ پر اسرائیل کی بلاتعطل بمباری، اسے فلسطینی بچوں کا مقتل بنانے اور لاکھوں لوگوں کو بےگھر کرنے کے دوران نیو یارک ٹائمز کے اداریے میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ ’اسرائیل جس کے دفاع کے لیے لڑ رہا ہے وہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو انسانی زندگی اور قانون کی حکمرانی کو اہمیت دیتا ہے‘۔

ایک ایسا اخبار جو جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے، اس کے ایڈیٹرز کی جانب سے جرائم کی مرتکب نسل پرست حکومت کے دفاع سے زیادہ عجیب کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس اداریے میں اسرائیلیوں کی طرف سے فلسطینی سرزمین کو نوآبادی بنانے اور وہاں کے باشندوں کو بےگھر کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

اور نیو یارک ٹائمز آخر کس قانون کی حکمرانی کی بات کررہا ہے؟ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے اور اسرائیلی خواتین اور بچوں کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئے ایڈیٹرز نے جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظرانداز کیا کہ اسرائیل کے پاس 5 ہزار فلسطینی قیدی ہیں۔

شہری آبادی پر فاسفورس بمبوں کا استعمال اور لاکھوں لوگوں کو خوراک سے محروم رکھنا، کیا یہ ایک ایسے ملک کی روش ہوسکتی ہے جو انسانی زندگی کو اہمیت دیتا ہے؟ اس طرح کے دوغلے پن اور مغرب کی حمایت نے اسرائیل کی مزید حوصلہ افزائی کی ہے اور حالات کو پہلے سے زیادہ غیر مستحکم کیا ہے۔


یہ مضمون 18 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں