پی ٹی آئی خواتین کارکنان کے ساتھ جیل میں بدسلوکی کی خبریں پروپیگنڈا ہے، خواتین افسران

اپ ڈیٹ 29 مئ 2023
ایس ایس پی انوش مسعود نے کوٹ لکھپت جیل کے دورے کے بعد میڈیا سے بات کی — فوٹو: ڈان نیوز
ایس ایس پی انوش مسعود نے کوٹ لکھپت جیل کے دورے کے بعد میڈیا سے بات کی — فوٹو: ڈان نیوز

لاہور کی ایس ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے ان کی خواتین کارکنان کے ساتھ جیل میں بدسلوکی سے متعلق پھیلائی جانے والی خبروں کو بے بنیاد قرار دے دیا اور کمیٹی نے کہا کہ یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔

پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی ہدایت پر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کا دورہ کرنے کے بعد ایس ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود چوہدری اور ڈی سی لاہور رافعہ حیدر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے خواتین سے بدسلوکی کی خبریں بے بنیاد قرار دے دیں۔

ڈاکٹر انوش مسعود نے کہا کہ جو خبریں خواتین کے حوالے سے پھیلائی جارہی ہیں وہ سب افواہیں ہیں کیونکہ جیل میں خواتین سے ہماری ملاقات ہوئی اور ایک ایک کرکے ہر خاتون سے بات ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جیل میں کوئی مرد خواتین کے سیل میں داخل نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کو گھر سے اشیا منگوانے کی سہولت تک دی جارہی ہے، بدسلوکی تو دور کی بات ہے ان کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آرہے ہیں۔

کوٹ لکھپت جیل کے دورے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ خدیجہ شاہ سے بھی ملاقات ہوئی ہے اور ہماری دوسری خواتین سے بھی ملاقات ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جیل میں موجود خواتین کو میڈیکل کی سہولت بھی دی جا رہی ہے، خواتین ماہر نفسیات بھی جیل میں موجود ہیں، کسی کو کوئی بھی طبی مسئلہ ہے تو علاج معالجے کی سہولت موجود ہے اور میڈیکل ایمرجنسی ہوئی تو اسپیشل علاج معالجہ فراہم کیا جائے گا۔

ایس ایس پی انویسٹی گیشن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی 10 خواتین کوٹ لکھپت جیل میں ہیں۔

پولیس کے مطابق لاہور سے گرفتار ہونے والی متعدد خواتین کو دوران تفتیش بے قصور ثابت ہونے پر رہا کیا جاچکا ہے۔

ڈی سی لاہور رافعہ حیدر کا کہنا تھا کہ جیل میں ایک ایک خاتون سے ملاقات کی ہے، ہمارے پاس ہسپتال اور ڈاکٹر ہر طرح کی سہولت ہے، خاص ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس سروس بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔

اس سے قبل عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ میں ملوث خواتین کے ساتھ دوران گرفتاری جنسی زیادتی اور ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

بعد ازاں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا تھا کہ 9 مئی کو ملک میں پُرتشدد مظاہروں کے بعد حراست میں لی گئیں خواتین کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جا رہا ہے۔

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پولیس اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ اگر خواتین کو حراست میں لیا جا رہا ہے تو خواتین اہلکار موجود ہوں۔

انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ پی ٹی آئی پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ خواتین کو جیلوں میں ہراساں کیا جا رہا ہے۔

محسن نقوی نے مزید کہا تھا کہ لاہور میں کورکمانڈر ہاؤس پر حملے میں ملوث تمام افراد کا احتساب کیا جائے گا چاہے جو کوئی بھی ہو۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی جیلوں میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی صرف 7 خواتین قید ہیں، ان میں سابق صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اور مشہور ڈریس ڈیزائنر اور سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کی نواسی خدیجہ شاہ شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دہشت گردی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزامات کے تحت درج مقدمات میں گرفتار پی ٹی آئی کی تمام 7 خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کی مختلف بیرکوں میں رکھا گیا ہے جہاں مجموعی طور پر 150 دیگر خواتین قیدی بھی موجود ہیں۔

پنجاب کے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر نے کہا کہ ہمارے پاس پی ٹی آئی کی صرف 7 خواتین ہیں جن میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور خدیجہ شاہ بھی شامل ہیں، پنجاب میں 43 جیلیں ہیں اور ان 7 خواتین کے سوا پی ٹی آئی کی کوئی خاتون رہنما یا کارکن صوبے کی کسی بھی جیل میں قید نہیں ہے، ان 7 قیدیوں کو کوٹ لکھپت جیل کے لیڈی وارڈ میں رکھا گیا ہے۔

انہوں نے صوبے بھر کی کئی جیلوں میں پی ٹی آئی کی سیکڑوں خواتین موجود ہونے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک یا مبینہ ریپ کی افواہیں بھی مسترد کردیں اور ان دعووں کو محض پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا کے ذریعے محکمہ جیل خانہ جات کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا۔

میاں فاروق نذیر نے دعویٰ کیا کہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے بیرکوں کی نگرانی کی جا رہی ہے، جیل کے ایس او پیز کے مطابق رات کے وقت میرے سمیت کسی بھی مرد اہلکار کو لیڈی بیرک میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لیڈی وارڈ میں متعدد بیرکیں اور 5 خصوصی سیل ہیں جہاں خواتین قیدیوں کی پرائیویسی یقینی بنانے کے لیے تینوں شفٹوں میں کوئی مرد اہلکار تعینات نہیں کیا جاتا۔

آئی جی جیل خانہ جات کا کہنا تھا کہ ہر شفٹ میں ایک لیڈی ڈاکٹر اور 2 لیڈی ہیلتھ وزیٹر خواتین قیدیوں کے لیے موجود ہوتی ہیں، کوٹ لکھپت جیل میں کسی بھی خاتون قیدی کے ساتھ تشدد یا مبینہ ریپ کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا اور نہ ہی بدسلوکی کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں