ہند و پاک میں خاندانی سیاست

کانگریس کے دس سالہ دوِر اقتدار کے بعد ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے بیچ سخت انتخابی ٹاکرا ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اس ٹاکرے میں ایک تیسرا حریف بھی دہلی میں حکومت بنانے کے بعد شامل ہوگیا ہے۔

بی جے پی کی جانب سے ہندوستانی گجرات کے وزیر اعلٰی نریندر مودی کو وزیر اعظم کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔ جبکہ کانگریس کی جانب سے انتخابی مہم کو لیڈ کرنے کے لئے گاندھی خاندان کے فرزند راہل گاندھی کو کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے نامزد کیا ہے۔

ادھر پاکستان میں مئی 2013 میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی وفاق میں پانچ سال مکمل کرنے کے بعد صرف صوبہ سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔

تجزیہ کاروں کے نزدیک انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بری کارکردگی کی وجوہات وفاق میں مایوس کن کارکردگی اور انتخابات میں بھٹو خاندان کی عدم دستیابی ہیں۔

2008 کے انتخابات میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کا نظریاتی ووٹ لینے کے ساتھ ساتھ ہمدردی کا ووٹ لینے میں بھی کامیاب ہوگئی تھی۔ تاہم 2013 کےانتخابات میں نظریاتی ووٹ بھٹو خاندان کی غیر حاضری کی وجہ سے مختلف جماعتوں میں بٹ گیا، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو کافی بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

انتخابات میں شکست کے بعد پیپلز پارٹی نے بھٹو خاندان کی اہمیت کو سمجھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی اب کوئی موقعہ آتا ہے تو بینظیر کے بچّے اپنی ماں کی غیر موجودگی میں اپنے والد سابق صدر آصف زرداری کیساتھ سٹیج پر نظر آتے ہیں۔ اور پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اپنا خاندانی جزباتی تقریری لہجہ استعمال کرتے ہوئے اپنا کھویا ہوا نظریاتی ووٹ دوبارہ اکٹھا کرنے کے لئے جلسوں میں تقاریر کرتے ہیں۔

بی جے پی کی جانب سے کانگریس کے دور اقتدارکو ہندوستانی عوام کے لئے ایک مکمل ناکام دور گردانا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے من موہن سنگھ کا چناؤ بھی کانگریس پر نقطہ چینی کا باعث بنتا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی جانب سے آنے والے انتخابات کے لئے انتخابی مہم کا کپتان راہل گاندھی کو منتخب کیا گیا ہے۔ جو کہ گاندھی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔

تینتالیس سالہ کنوارے راہل گاندھی دو مرتبہ ہندوستانی وزیر اعظم رہنے والے راجیو گاندھی کے صاحبزادے اور سابقہ وزیر اعظم ِاندرا گاندھی کے پوتے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ دونوں سابق وزراعظم کے حصّے میں سیاسی موت آئی۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماضی کی گھٹناؤں کو دیکھتے ہوئے ہی کانگریس کی جانب سے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود ماضی میں نہ تو راہل گاندھی اور نہ ہی سونیا گاندھی کو وزیراعظم کے عہدے کے لئے چـنا گیا۔

پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو کے ہاں پیدا ہونے والے پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو زرداری دسمبر 2007 میں طالبان کے ہاتھوں اپنی ماں کی ہلاکت کے بعد انیس سال کی عمر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بنے۔

آصف زرداری کی جانب سے بلاول زرداری کا نام تبدیل کرکے بلاول بھٹو زرداری کردیا گیا اور بلاول کی وطن واپسی پر پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین نامزد کیا گیا۔

مضبوط خاندانی سیاسی پس منظر رکھنے دونوں نوجوان سیاستدان نہ صرف اپنے والد اور والدہ کو بلکہ اپنے اپنے نانا اور دادی کو بھی سیاست کے ہاتھوں گنوا چکے ہیں۔ جس کے بعد ان دونوں کو بھی عسکریت پسندوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان دونوں کے مابین نہ صرف اپنے پیاروں کو گنوانے کی تاریخ مشترک ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور کچھ چیزیوں میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کو بہترین تعلیم کے حصول کے لئے ایچیسن کالج، لاہور میں داخل کروایا گیا۔ تاہم سیکیورٹی وجوہات کی بِنا پر پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد کے سکولوں میں زیر تعلیم رکھا گیا۔

آکسفورڈ میں جدید تاریخ، برطانوی تاریخ اور جنرل تاریخ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بلاول بھٹو جون 2010 میں وطن واپس آئے۔ تاہم ستمبر 2008 میں بلاول اپنے والد کی صدارتی تقریب حلف برداری میں شمولیت کے لئے بھی خصوصی طور پر پاکستان آئے۔

ایک اندازے کے مطابق بلاول کی آکسفورڈ میں رہائش پر ایک ملین پاؤنڈ سالانہ خرچ آیا۔ 2010 میں پاکستان واپسی کے بعد اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی پانچویں برسی کے موقعہ پر ایک بڑے مجمعے سے خطاب کرکے بلاول بھٹو نے اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔

سیکیورٹی خدشات کے سبب ہی راہل گاندھی کو بھی مختلف اسکولوں میں زیر تعلیم رکھا گیا۔ راہل گاندھی نے اپنا تعلیمی سفر دہلی کے سینٹ کولمبس سکول سے شروع کیا اور ڈون سکول میں بھی زیر تعلیم رہے۔

دادی کی وفات کے بعد راہل دہلی کے سینٹ سٹیفن کالج میں داخل ہوئے مگر اپنا پہلا سال مکمل کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی منتقل ہوگئے۔ والد کی وفات کے بعد سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر راہل گاندھی رولنز کالج منتقل ہوگئے جہاں سے 1994 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ ایم فِل کے لئے ٹرینٹی کالج، کیمبرج میں داخلہ لیا۔ راہل گاندھی نے بیرون ملک تعلیم بھی جعلی ناموں کے ساتھ حاصل کی۔

رولنز یونیورسٹی اور کیمبرج سے بین الاقوامی تعلقات اور فلسفہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد راہل گاندھی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز مارچ 2004 میں ہونے والے انتخابات میں اپنے والد کی نشست امیٹھی سے انتخابات میں شرکت کرنے کے اعلان سے کیا۔

2007 میں راہل اپنے والد اور پرنانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کانگریس کے سیکریٹری جنرل کے عہدے کے لئے نامزد کئے گئے اور 2013 میں انھیں کانگریس کے نائب صدر کا عہدہ سونپ دیا گیا۔

مغربی میڈیا کو دیئے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں راہل گاندھی نے ہندوستان کو متحد کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ ہندوستان میں سے ذات اور مزہب سے متعلق تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔

پاکستان اور ہندوستان کے سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے دونوں مستقبل کے لیڈران اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپریل 2012 میں ہندوستانی وزیر اعظم کی جانب سے دیئے گئے عشایئے میں ملے۔ جہاں دونوں کے مابین چالیس منٹ تک مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ دونوں کی جانب سے مستقبل میں پاک ہندوستان تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر زور دیا گیا اور بلاول بھٹو کی جانب سے راہل گاندھی کو پاکستان دورے کی دعوت بھی دی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں