ریاض: کل بروز جمعرات سعودی عرب کے ایک روزنامے الحیات میں شایع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اعلٰی سطح کے سعودی مذہبی پیشوا نے ایسی خواتین کو تنبیہ کی ہے جو بغیر کسی مرد سرپرست کے ہمراہ مرد ڈاکٹروں کے پاس جاتی ہیں، ان کے دعوے کے مطابق یہ اسلام میں ممنوع ہے۔

ان کا یہ بیان گزشتہ ہفتے ایک یونیورسٹی کی خاتون طالبعلم کی ہلاکت کے بعد سامنے آیاہے، اس خاتون کے کیمپس میں طبی عملے کو داخلے کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی تھی کہ خاتون طالبعلم کے ہمراہ ان کا مرد سرپرست یا قریبی عزیز نہیں تھا، جو اس مسلم بادشاہت کے مردوں اور خواتین کے اختلاط کو روکنے کے سخت قانون کے تحت لازم ہے۔

یاد رہے کہ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق ریاض یونیورسٹی کی طالبعلم کے علاج میں تاخیر اور سخت قوانین کی وجہ سے موت واقع ہونے پر سعودی شہریوں نے سوشل میڈیا پر سخت احتجاج کیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق آمنہ باوزیر نامی طالبعلم کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا، لیکن طبی عملے میں شامل مردوں کو علاج کے لیے خواتین کے کیمپس میں داخلے کی اجازت نہ دیے جانے کے باعث آمنہ کی جان سے چلی گئی۔

سعودی اخبار عکاظ کے مطابق شاہ سعود یونیورسٹی کے ایڈمنسٹریٹر نے ان کوششوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی جو ہارٹ اٹیک کا شکار ہونے والی طالبعلم کی جان بچانے کے لیے کی جا رہی تھیں۔ ریاض یونیورسٹی کی خاتون طالبعلم کے انتقال کے بعد سعودی عرب میں سوشل میڈیا میں اس وقعے پر سخت ردعمل سامنے آیا۔

بعض سعودی شہریوں نے الزام عائد کیا تھا کہ سعودی عرب کے صنفی امتیاز کے حوالے سے سخت گیر قوانین اس طالبعلم کی ہلاکت کا باعث بنے تھے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں اسلام کی شدت پسندانہ تشریح رائج ہے اس وجہ سے سکولوں سے لے کر جامعات تک مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں ہے۔ حتّٰی کہ ریستورانوں میں فیملیز کے داخلے کے لیے بھی الگ الگ راستے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق بارہ سال پہلے 2002ء کے دوران مقدس شہر مکہ شہر میں لڑکیوں کے ایک اسکول میں آگ بھڑک اٹھنے سے 15 طالبعلم ہلاک ہو گئی تھیں، اور مذہبی پولیس نے ان کے باہر نکلنے کے راستوں کو بند کردیا تھا، اس لیے کہ اس وقت ان کے لباس مذہبی کوڈ کے مطابق نہیں تھے۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ شہری دفاع کے مرد کارکنوں کو آگ بجھانے سے اس لیے روک کر رکھا گیا کہ بارہ سے چودہ سال کی بچیوں نے اپنے سیاہ عبایا نہیں پہن رکھے تھے، جس سے پورے جسم کو ڈھانپا جاتا ہے۔

گزشتہ ہفتے ریاض یونیورسٹی میں خاتون طالبعلم کی ہلاکت کے واقعے کی اساتذہ نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق پروفیسر عزیزہ یوسف کا کہنا ہے کہ ’’جامعہ کو ایسی انتظامیہ کی ضرورت ہے جو فوری فیصلے کرے اور یہ نہ دیکھے کہ اس پر گھر والے کیا کہیں گے اور سماج کیا کہے گا۔‘‘

اس عوامی ردّعمل کے بعد روزنامہ الحیات کے مطابق سینئر مذہبی عالموں کی کونسل کے ایک رکن شیخ قیاس المبارک نے کہا کہ ‘‘ایسی خواتین جو محرم (مرد سرپرست) کے بغیر ڈاکٹر سے رجوع کررہی ہیں، غفلت میں مبتلا ہیں، اور یہ ممنوع ہے۔’’

اے ایف پی کے مطابق شیخ قیاس المبارک نے کہا کہ ’’ایسا طبی معائنہ جس میں ایک خاتون کو اپنے جسم کے حصے ڈاکٹر کے سامنے ظاہر کرنے پڑیں، اس کی اجازت نہیں ہے، چاہے کس قدر اشد ضروری ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

انہوں نے کہا کہ خواتین صرف اسی وقت مرد ڈاکٹر کی مدد لے سکتی ہیں، جب کہ خواتین ڈاکٹر اور طبی عملہ موجود نہ ہو۔ اگر بالفرض ایسا ہو تو انہیں لازماً تنہا نہیں ہونا چاہیٔے اور ڈاکٹر صرف جسم کے اس حصے کا معائنہ کرے جہاں درد ہو۔

انتہائی حد تک قدامت پرست بادشاہت میں سینئر علماء کی کونسل کو سب سے زیادہ مذہبی بالادستی حاصل ہے۔

روزنامہ الحیات کا کہنا ہے کہ مشرقی صوبے میں بدنام مذہبی پولیس بہت سے نجی ہسپتالوں میں خواتین کو بغیر مرد سرپرست کے داخل ہونے سے بالجبر روکتی ہے۔

الحیات کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’امربالمعروف و نہی عن المنکر (مذہبی پولیس) کے اراکین طبی اور غذا سے متعلق مراکز میں خواتین کے داخلے سے روکتے ہیں اور محرم کی موجودگی کے بغیر خواتین کو مرد ماہرِ غذا سے مشورہ کرنے سے منع کرتے ہیں۔‘‘

اے ایف پی کا کہنا ہے کہ ان الزامات کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہوسکی۔

سعودی عرب میں اسلامی قوانین کی سخت تشریحات نافذ ہیں، جس کے تحت دونوں اصناف کو مخلوط ماحول کی اجازت نہیں ہے، اور خواتین کو اپنے خاندان کے مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر کام کرنے یا سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

اس کے علاوہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی عائد ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Naveed Fakhar Feb 17, 2014 04:46pm
if ur muslim then u must obey order of Allah. but coun cil should give capicity in case of emergency