سلگتی جنت کے خاموش تماشائی

اپ ڈیٹ 29 جولائ 2016
ہم میں سے ہر کوئی کشمیر میں ہونے والے اس ظلم و ستم کا تماشائی ہے، اور تماشہ دیکھنے والے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
ہم میں سے ہر کوئی کشمیر میں ہونے والے اس ظلم و ستم کا تماشائی ہے، اور تماشہ دیکھنے والے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

دنیا کی جنت نظیر وادیء کشمیر کا کونا کونا سوگ میں ڈوبا ہوا ہے، اسکول، کالج، دفاتر اور بازاروں میں تالے پڑے ہیں، اشیائے خورد و نوش کی کمی بڑھنے لگی ہے، کرفیو کے باعث گلیاں ویران ہیں۔

لیکن دنیا خاموش ہے۔

میرے ذہن میں اکثر یہ خیال آتا ہے کہ مشکل حالات میں گھرے فرد یا افراد کیا سوچتے ہوں گے؟ وہ بے بسی اور لاچاری ان کے ذہنوں میں کون سا پہلا خیال بیدار کرتی ہوگی؟

شاید وہ یہ سوچتے ہوں کہ جس دنیا میں اب ہم رہتے ہیں، جہاں سیکنڈوں میں ہزاروں میل دور رابطہ ممکن ہے، وہاں اب تک تو ہم پر نازل کی جانے والی یہ مصیبت ٹی وی، فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے دنیا بھر میں پہنچ چکی ہوگی، انتظامیہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حرکت میں آچکی ہوں گی، اور جلد ہی مصیبت کی یہ رات کٹ جائے گی۔

پڑھیے: سری نگر سے ایک خط: ظلم کی رات کب ختم ہوگی؟

جلد ہی کوئی نہ کوئی ہمیں اس ظلم سے نجات دلا دے گا کیونکہ بات صرف ملک کی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی ساکھ کی بھی ہے تو ایسا کیونکر ممکن ہے کہ کوئی نہ آئے، کوئی ہمیں نہ بچائے، ہمیں یونہی مرنے دے۔

امید بڑھتی جاتی ہوگی، قدم مضبوط ہوتے جاتے ہوں گے، ہر آہٹ پر ایک ہی گمان ہوتا ہو گا کہ ہمیں کوئی بچانے آیا ہے۔

شاید امداد پہنچ بھی جاتی ہو لیکن بروقت امداد صرف ان کے لیے ہے جو یا تو اعلیٰ عہدوں پر ہوں، یا اعلیٰ عہدوں والوں سے ان کے تعلقات ہوں۔ انہیں بغیر گزند کے "ری کور" بھی کرلیا جاتا ہے اور ان کو زک پہنچانے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا بھی دیا جاتا ہے۔

اگر ظلم میں پستے عام شہری ہوں تو انتظار بڑھتا جاتا ہے، آس بڑھتی جاتی ہے اور امید و ناامیدی کی یہ اذیت دل میں کسی انی کی صورت دل میں پیوست ہوتی جاتی ہے۔

آخر ناامیدی حد سے بڑھ جاتی ہے کہ دنیا کو خبر ہونے کے بعد بھی کوئی امیدِ خیر نہیں۔ "اب کیا ہوگا؟" کی گردان اٹھتے بیٹھتے ساتھ ساتھ ڈولتی رہتی ہے۔

چلیے اس مسئلے کو یہاں چھوڑتے ہیں اور اب یہ غور کرتے ہیں کہ پر امن اور قدرے بہتر حالات کے حامل ممالک میں روزانہ روزگار کے سلسلے میں گھروں سے جاتے افراد، ہر لمحہ موبائل سے کھیلتے لاکھوں کروڑوں لوگ، انٹرنیٹ سے محظوظ ہوتی نوجوان نسل اور گھروں میں سکون سے بیٹھے ٹی وی پر ظلم و ستم کی خبریں دیکھتے لوگ کیا کرتے اور سوچتے ہیں۔

کچھ اسے مشیتِ الہٰی قرار دیتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اللہ کی مرضی کے آگے تو کوئی چل نہیں سکتا، گویا معاملہ ہی ختم۔

کچھ سوچتے ہیں کہ وہ بے بس ہیں یہ تو حکمرانوں کا کام ہے۔ بھلا کسی ایک ملک کا شہری کسی دوسرے ملک کے شہری پر ہوتے ظلم کو کیسے روک سکتا ہے؟

مزید پڑھیے: کشمیر کی التجا: ہماری آنکھیں ہم سے مت چھینیں

حکمرانوں کے مطابق "یہ کسی ملک کا داخلی معاملہ ہے جس میں صرف اقوامِ متحدہ اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔"

اقوامِ متحدہ اپنے شدید دکھ کے اظہار کے بعد اس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات پر غور کرنے کے لیے سر جھکائے بیٹھی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس کی قسمت میں جھکا سر ہی لکھا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک نئی رسم چلی ہے کہ کچھ نہ بھی کرسکو تو سوشل میڈیا پر ہی یہ خبر وائرل کر دو۔ "کم از کم یہ تو ہم کر ہی سکتے ہیں" اور اس "کر ہی سکتے ہیں" کو پورا کرنے کے لیے میڈیا ایک رپورٹ کے ساتھ دکھ بھرا گیت لگا دیتا ہے۔

صبح سے شام تک آرکائیوز میں پڑی ڈاکیومینٹریز ایک ایک کر کے چلائی جاتی ہیں۔

گزشتہ اور حالیہ واقعات پر نئے اور پرانے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔

پرائم ٹائم میں اس موضوع پر کئی ٹاک شوز کر دیے جاتے ہیں۔

اس ضمن میں کئی لمبے اور جذباتی مباحثے اور تحریریں سوشل میڈیا کا حصہ بن جاتی ہیں۔

لیکن اس "کچھ نہ کچھ کرنے" کا اس مظلوم طبقے کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہ اسی طرح صبح و شام امید و ناامیدی کے درمیان سے گزرتا ہے، پل پل ڈوبتے دل کو خود ہی حوصلہ دیتا ہے۔ پھر یا تو وہ جیتا ہے یا ملکِ عدم سدھار جاتا ہے۔

اس خوبصورت وادی کے چہرے میں روز ظلم و بے حسی کے چھرے گاڑے جاتے ہیں۔ اس چمن کے پھولوں سے قطرہ قطرہ لہو بہایا جاتا ہے، دبی دبی سسکیاں اور آہ و زاریاں صرف رات کے سناٹے میں نہیں بلکہ دن کے اجالے میں بھی فضا میں سرسراتی محسوس ہوتی ہیں۔

اس وادی کے باسیوں کی جہاں ایک امید دم ٹوڑ رہی ہے وہیں دوسری جوان بھی ہورہی ہے۔

امید عالمی امداد کی، امید کسی کے رحم کی، امید اس جنگ بندی کی، آہستہ آستہ دم توڑتی جارہی ہے لیکن امید خود کچھ کرنے کی، امید کھڑے ہونے، لڑنے اور مرجانے کی، امید اپنی مٹی کو آزاد کرنے کی، امید خوں رِستے پھولوں کو پھر مہکانے کی، امید خود اس چمن کو بچانے کی، امید پھر اس اداس وادی کو مہکانے کی دھیرے دھیرے جوان ہو رہی ہے۔

سڑکوں، گلیوں میں ہاتھ میں پتھر لیے نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، آزادی کی صدائیں پر جوش ہونے لگی ہیں، ایک وانی گیا ہے تو کئی وانی بننے کو تیار کھڑے ہیں۔ خود کو بچانے کا بس یہ سامان کیے کہ محض ایک کپڑے سے اپنا چہرہ چھپا لیا ہے۔

یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ معمولی سی رکاوٹ لوہے کی چھرے اگلتی ان بندوقوں کے سامنے غیر اہم ہے، بے حیثیت ہے۔ کچھ اس سے بھی آزاد یونہی سینہ تانے آگے بڑھتے ہیں.

جانیے: 'کئی سالوں بعد قریبی مسجد سے آزادی کے نعرے گونجے'

"غیر مہلک ہتھیار" کے منہ کھول دیے جاتے ہیں۔ لوہے کے تیز چھرے ان کے جسموں میں پیوست ہوتے جاتے ہیں۔ ان کی چیخ و پکار، اذیت، لاچاری، بے بسی بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بیدار نہیں کرسکی ہے شاید ان کی تکلیف اتنی نہ ہو یا شاید یہ وہ لوگ ہی نہ ہوں جن کے لیے آواز اٹھائی جائے۔

ایک بار پھر بین الاقوامی عدالت اندھی اور بہری ہوچکی ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں خاموش تماشائی کا کردار نبھا رہی ہیں۔

انسانی حقوق کے داعی یورپی ممالک پیٹھ پھیرے کھڑے ہیں۔

مفادات کے حصول یا اپنی اندرونی جنگوں میں مصروف اسلامی ممالک کے پاس کہاں اتنا وقت ہے کہ وہ حسین پربتوں کی وادی میں بہتے خون پر اپنی آواز بلند کرے۔

اقوامِ متحدہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے اپنے مالکان کے اشارے کی منتظر ہے۔

کشمیر میں روز سورج اپنی پوری آب و تاب سے نکلتا ہے اور اپنی چمک سے کونے کونے کو روشن کرتا ہے، لیکن کئی آنکھوں میں ایسا اندھیرا ہے جسے سورج کی تیز چمکدار روشنی بھی دور نہیں کر پاتی۔

ہم میں سے ہر کوئی سلگتی جنت میں ہونے والے اس ظلم و ستم کا تماشائی ہے، اور تماشہ دیکھنے والے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

توفیق رضوی Jul 28, 2016 04:53pm
ما شا اللہ، بہت اچھی تحریر لیکن انسانیت کے دشمن کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ کہاں ہیں حقوق انسانی کے ٹھیکدار!
ahmakadami Jul 29, 2016 08:48am
tum bohaat dil sey likhtee ho
فرحان احمد خان Jul 29, 2016 04:42pm
بہت خوب ۔''ہم میں سے ہر کوئی سلگتی جنت میں ہونے والے اس ظلم و ستم کا تماشائی ہے، اور تماشہ دیکھنے والے جرم میں برابر کے شریک ہیں''