واشنگٹن: سابق امریکی اور پاکستانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ باہمی اختلافات نہ پاکستان کے مفاد میں بہتر ہیں اور نہ ہی امریکا کے جبکہ امریکا میں اگر مستقبل میں کوئی دہشت گرد حملہ ہوا تو واشنگٹن پاکستان کے خلاف سخت رد عمل ظاہر کرسکتا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے ماتحت امریکا اور پاکستان کے تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے زیر اہتمام منعقدہ مباحثے میں امریکی و پاکستانی حکام نے شرکت کی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا دور صدارت جنوبی 2017 سے شروع ہوگا اور وہ موجودہ صدر براک اوباما کی جگہ یہ عہدہ سنبھالیں گے۔

سابق امریکی سفیر لیزا کرٹس اور امریکا میں تعینات رہنے والے سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ٹرمپ کے ممکنہ دور کی بدترین تصویر پیش کی اور خبردار کیا کہ اگر امریکا میں کوئی دہشت گرد حملہ ہوتا ہے اور اس کی جڑیں پاکستان تک پہنچتی ہیں تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ پاکستان کیلئے اچھے ثابت ہوں گے یا برے؟

سابق امریکی نائب سیکریٹری برائے جنوبی و وسط ایشیائی امور رابن رافیل نے امکان ظاہر کیا کہ شدت پسند تنظیم داعش افغانستان اور پاکستان میں اپنی جڑیں مزید گہری کر سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں ’اگر امریکی انتظامیہ نے ویسا ہی کیا جیسا کہ ٹرمپ نے کہا تھا تو پاکستان کے لیے اضافی امریکی امداد کا ایک اور دور شروع ہوسکتا ہے‘۔

شرکاء نے اس بات کی نشاندہی کی کہ صدارتی مہم کے دوران امریکا پاکستان تعلقات کو زیادہ توجہ نہیں دی گئی تاہم جب ٹرمپ انتظامیہ اقتدار میں آئے گی تو اسے اس اہم شراکت داری کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

سابق عہدے داروں نے پاک امریکا باہمی تعلقات کے تناظر میں دو ارب ڈالر کے امریکی امداد کے اثرات کا بھی جائزہ لیا۔

مباحثے میں شریک چاروں سابق عہدے داروں نے پاک امریکا تعلقات میں رہنے والے تلخیوں کا اعتراف کیا تاہم انہیں نے اس میں اضافے کے حوالے سے خبردار کیا۔

یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے معید یوسف کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوال کی روشنی میں اجلاس کے شرکاء نے امریکی انتظامیہ میں تبدیل کے بعد پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے تمام ممکنہ پہلوؤں (اچھے، برے ، بدترین) پر غور کیا۔

مزید پڑھیں: 'پاکستان اور امریکا کے تعلقات غیر متوازی'

لیزا کرٹس جو اب ہیریٹیج فاؤنڈیشن نامی تھنک ٹینک کے ساتھ کام کرتی ہیں، خبردار کیا کہ ’پاکستان کے لیے امریکی سیکیورٹی امداد میں کمی کا سلسلہ جاری رہے گا جب تک پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی نہیں آتی اور وہ دہشت گردوں کا گرفتار اور سزا نہیں دیتا‘۔

انہوں نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات دوبارہ بہتر ہوسکتے ہیں اگر پاکستان افغان طالبان کی اپنی سرزمین میں نقل و حرکت کو روکے اور انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے دباؤ ڈالے۔

ہڈسن انسٹیٹیوٹ میں ڈائریکٹر برائے جنوبی و وسطی ایشیا حسین حقانی نے کہا کہ ’جو ممکنہ اثرات مرتب ہوں گے ان میں پاکستان سے امیگریشن پر پابندی،امداد میں کمی اور پاکستان کی جانب سامنے آنا والا ردعمل بھی اہم ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ ’رد عمل نپا تلا ہو تاکہ اس کی وجہ سے جوابی عمل کا ایک سلسلہ نہ چل پڑے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے محبت ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

رابن رافیل نے کہا کہ ’عین ممکن ہے کہ نئی انتظامیہ کئی معاملات پر نظر ثانی کرے اور مزید سخت موقف اپنائے جیسا کہ افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کو بطور پناہ گاہ استعمال کرنے کا معاملہ ہے‘۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ’پاکستان شاید مختصر مدت کے لیے ہی سہی لیکن ان منصوبوں میں پیش رفت کرے گا جن کے تحت ممکن ہے کہ وہ ان گروپس سے نمٹے‘۔

سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین نے کہا کہ ’اگر ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو افغانستان سے غیر ملحق کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو پاکستان اور امریکا کے تعلقات مزید دیر پا اور مثبت ہوجائیں گے‘۔

یہ خبر 19 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں