سرائیو: وزیراعظم نواز شریف نے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی پاکستان واپسی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں واپس آکر اپنی جماعت کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے۔

خیال رہے کہ آصف علی زرداری گذشتہ 18 ماہ سے بیرون ملک مقیم تھے اور ان کی جمعے کے روز آمد متوقع ہے۔

پاکستانی کی سرکاری نیوز ایجنسی 'اے پی پی' کی رپورٹ کے مطابق بوسنیا اور ہرزیگوینا کے 3 روزہ دورے پر موجود وزیراعظم نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 'سچ کہوں تو میں ان (آصف زرداری) کی وطن واپسی سے خوش ہوں، انھیں واپس آنا اور اپنی جماعت کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے'۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری کی 18 ماہ بعد پاکستان واپسی، استقبال کی تیاریاں

آصف علی زرداری، جن کی جمعے کے روز کراچی کیلئے پرواز طے ہے، گذشتہ سال جون میں ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متنازع بیان دینے کے بعد بیرون ملک چلے گئے تھے۔

سابق صدر کی جانب سے ملک سے باہر اس قدر طویل عرصہ گزارنے کو میڈیا نے خود ساختہ جلا وطنی قرار دیا تھا تاہم ان کی پارٹی نے کبھی بھی اس کی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی تعلق کی حمایت کرتے ہیں اور اس موقع پر نشاندہی کی کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن نے 'چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے تھے۔

انھوں نے کہا کہ پی پی پی کے دور حکومت میں بھی انھوں نے سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری کی وطن واپسی خوش آئند: مصدق ملک

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پی پی پی نے اختلافات کے باوجود احتجاج اور دھرنوں کی پالیسی اختیار نہیں کی۔

خیال رہے کہ آصف زرداری کی جانب سے وطن واپسی کے اعلان کے بعد سے پی پی پی کی جانب سے شریک چیئرمین کی آمد پر جشن منانے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اس حوالے سے کراچی ایئر پورٹ کا دورہ بھی کیا اور سابق صدر کی آمد کے سلسلے میں تیاریوں کا جائزہ لیا جبکہ شہر میں جابجا بینرز بھی آویزاں کیے گئے ہیں جن کے ذریعے پارٹی کے شریک چیئرمین کو خوش آمدید کہا گیا ہے۔

ایبٹ آباد کیمشن رپورٹ

وزیراظم نواز شریف نے کہا کہ وہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ منظر عام پر لانے سے قبل اس کا جائزہ لیں گے۔

انھوں نے کہا کہ وہ بوسنیا اور ہرزیگوینا کا دورہ مکمل کرنے کے بعد وہ پاکستان واپس جا کر اس رپورٹ کا جائزہ لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ سال 2016 حکومت کیلئے انتہائی مشکل تھا تاہم اس کا اختتام ایک اچھے عمل سے ہورہا ہے۔

عمران خان کا نام لیے بغیر ان کا کہنا تھا کہ ملک کے معاملات چلانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور خاص طور پر ان کے تو قطعی نہیں جو دھرنوں کے عادی ہیں۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری کی واپسی 27 دسمبر سے قبل متوقع

سابق صدر پرویز مشرف کا نام لیے بغیر وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ وہ جن کا 7 نکاتی ایجنڈا ہے کبھی مثبت تبدیلی نہیں لاسکیں گے اور بالآخر انھوں ںے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی لعنت کو قوم کیلئے پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

انھوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ حکومت آئندہ کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے بجلی کے مسائل کو حل کرنے کے اقدامات کررہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت تمام ترقیاتی مسائل کو حل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ان کی جانب سے تمام شعبوں میں اصلاحات کی پالیسی جاری رہے گی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ اپنی پارٹی کے منشور میں شامل مقاصد کو پورا کرنے کیلئے کام کررہے ہیں۔

انھوں نے نشاندہی کی کہ 49 جدید ہسپتالوں کی تعمیر کے ایک منصوبے کو فعال کرنے کی کوششیں کی جاری ہیں اور متعدد اضلاع کے عوام کیلئے ہیلتھ کارڈ بھی جاری کردیئے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری نے 'جلد وطن واپسی' کا عندیہ دیدیا

ان کا کہنا تھا کہ ایل این جی اور سمشی توانائی کے منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا جبکہ قومی خزانے کے 100 ارب روپے بچائے گئے ہیں۔

ریگولیٹری اتھارٹیز کو وزارتوں کے ماتحت کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان اداروں کا مقصد نجی شعبے کو درست کرنا تھا لیکن انھوں نے حکومتی معاملات میں داخلت شروع کردی۔

انھوں نے کہا کہ ان اتھارٹیز کے اس نقطہ نظر کی وجہ سے بہت سے منصوبے تعطل کا شکار ہوئے جو برادشت نہیں کیا جائے گا اور اس فیصلے پر مناسب انداز میں عمل درآمد کیا جائے گا۔

آصف علی زرداری کی خود ساختہ جلا وطنی

20 نومبر 2016 کو سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے عنقریب وطن واپسی کا عندیہ دیا تھا۔

آصف علی زرداری نے یہ اعلان ایسے موقع پر کیا تھا جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ریٹائر ہونے جارہے تھے۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے 17 جون 2015 کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک تقریر کے دوران بظاہر اسٹیبلشمنٹ کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہمیں پریشان نہ کیا جائے، ورنہ اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی'، بیان کے ایک ہفتے کے اندر ہی نامعلوم وجوہات کی بنا پر سابق صدر ملک چھوڑ گئے تھے، وہ 25 جون سے دبئی میں مقیم ہیں۔

فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری کا مزید کہنا تھا کہ فوج کے جنرل ہر تین سال میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں البتہ سیاستدان ملک میں ہمیشہ رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہتر جانتے ہیں کہ ملک کے معاملات کو کیسے چلانا ہے۔

واضح رہے کہ ان کے مذکورہ بیان کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور پی پی میں تعلقات کشیدہ ہونے کے حوالے سے افواہیں گردش کرنے لگیں اور آصف علی زرداری کے دبئی منتقل ہونے کے بعد کراچی میں جاری آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پی پی سے تعلق رکھنے والے متعدد وزراء اور دیگر رہنماوں کو گرفتار بھی کیا، جن پر مختلف الزامات لگائے گئے تھے۔

کراچی سے گرفتار ہونے والے پی پی رہنماوں میں ڈاکٹر عاصم حسین بھی شامل ہیں جن پر دہشت گردوں کے علاج میں سہولت کاری کے الزام ہے۔

بعد ازاں 23 فروری 2016 کو آصف علی زرداری سے منسوب ایک اور بیان بھی سامنے آیا جس میں انھوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے فیصلے کو 'قبل از وقت' قرار دیا تھا۔

اس بیان کی ان کی پارٹی کی جانب سے تصدیق یا تردید نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک معمہ بن گیا تھا جبکہ زرداری بھی میڈیا کے منظر نامے سے غائب تھے۔

بعد ازاں 12 مارچ 2016 کو ڈان نیوز کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ان کے بیانات کو ہمیشہ غلط رنگ دیا جاتا ہے اور یہ کہ وہ کسی سے تصادم نہیں چاہتے اور سسٹم کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'اینٹ سے اینٹ بجانے' والی بات کا اشارہ دراصل فوج کی جانب نہیں تھا بلکہ مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب تھا، کسی اور کی 'اینٹ سے اینٹ' نہیں بج سکتی۔

سابق صدرکا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے 'دونوں بیانات' کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔

یہ رپورٹ 23 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں