موسیقی کی دنیا میں جہاں حروف ختم ہوتے ہیں، وہاں سے سازوں کی گفتگو شروع ہوتی ہے۔

پاکستان میں گٹار کی زبان میں سب سے دلکش گفتگو کرنے والا فنکار عامر ذکی تھا۔ یہ دنیا عامر بھائی کے لیے ناپسندیدہ جگہ تھی، اس لیے وہ یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔

دسمبر 2010 کی سرد شام میں، جب پہلی مرتبہ عامر بھائی سے فون پر بات کر کے ملاقات کا وقت طے کیا، تو یہ میرے لیے بے حد خوشی کا لمحہ تھا، کیوں کہ میں اس شخص سے ملنے اور مکالمہ کرنے جارہا تھا جس کو بچپن سے سنتا آرہا تھا۔

میرے ذہن میں عامر بھائی کے حوالے سے ایک رئیس زادے جیسا موسیقارکا تصورتھا، کیوں کہ وہ انگریزی کلاس میں زیادہ مقبول تھے، پاکستانی پوپ کے مقبول ترین فنکار برادری کا حصہ تھے، اس لیے بہت پرتجسس تھا۔

مزید پڑھیں: معروف گٹارسٹ عامر ذکی انتقال کرگئے

میں اسی کیفیت میں، طارق روڈ پر واقع ان کی رہائش گاہ پر پہنچا جو ایک گھر کا مختصر بالائی حصہ تھا، جہاں وہ قیام پذیر تھے۔ یہ میرے تصور پر پہلی چوٹ تھی، اتنا مقبول اور بڑا آرٹسٹ کرائے پر ایک چھوٹے سے گھر میں اپنی والدہ کے ساتھ رہ رہا تھا۔ ان کے کمرے میں بہت سارے گٹار تھے، ایک لیپ ٹاپ اور ایش ٹرے، جس میں وہ مسلسل سگریٹ پیتے ہوئے راکھ جھاڑ رہے تھے۔ معاشرے اور حالات نے جو ان کے ساتھ کیا موسیقی اور سگریٹ اس کا ردعمل تھا۔

وہ ایک ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے۔ 22 سال کی عمر میں شادی ہوئی، تاہم دو ہی برسوں میں وہ رشتہ ٹوٹ گیا۔

کمرشل منافقت بھی ان کی شخصیت کا خاصا نہ تھی۔ ان کو دوستیوں سے فائدے اٹھانے بھی نہیں آتے تھے۔ کوئی کچھ بھی کہے، مگر سچ یہی ہے کہ عامر ذکی اس معاشرتی ٹوٹ پھوٹ سے کبھی باہر نہ آسکے۔ ان کے گیتوں میں گونجنے والا درد وہی ہے، جس کو کبھی گٹار اور کبھی سگریٹ کے ذریعے انہوں نے حل کرنے کی ناکام کوشش کی، حتیٰ کہ اسی اذیت نے ان کی صحت کو تباہ کردیا۔

پاکستان میں جب بھی عامر ذکی کی بات ہوتی ہے، تو لوگوں کے پاس سنانے کو بہت کہانیاں ہیں، کیوں کہ وہ ایک مقبول فنکار تھا، مگر بہت کم لوگ اس کے درد شناس تھے۔ وہ تنہائی کا موسیقار تھا، وہ موسیقی، جس میں یادیں، دھڑکنوں میں شامل ہوجایا کرتی ہیں۔

عامر ذکی کو 13برس کی عمر میں والد کی طرف سے گٹار تحفے میں ملا۔ وہ بغیر کسی تربیت کے گٹار کو بجانے کا فن سیکھتے چلے گے۔ اسی جنون کے عالم میں معروف گلوکار عالمگیر کی نظر ان پر پڑی، انہوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔عامر ذکی نے عالمگیر کی دو البم ’کہہ دینا‘ اور ’البیلا راہی‘ میں گٹار بجایا۔ ان کے ساتھ انڈیا، دبئی، انگلینڈ اور امریکا کے دورے بھی کیے اور وہاں کنسرٹ میں اپنے فن کا جادو جگایا۔

یہ بھی پڑھیں: عامر ذکی کے 8 یادگار گانے

1994میں عامر ذکی نے پاکستان میں پہلا انسٹرومنٹل البم ’سگنیچر‘ ریلیز کیا جس میں دو گیت ان کی آواز میں شامل تھے، باقی دھنیں انسٹرومنٹل تھیں۔ یہ البم فن کی دنیا میں واقعی ان کا دستخط ثابت ہوئی۔ آج تک اس انداز سے سامعین پہچان لیتے ہیں کہ یہ عامر ذکی کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہ البم پاکستان کے علاوہ برطانیہ میں بھی ریلیزہوئی تھی۔

عالمگیر کے علاوہ عامر ذکی نے جن معروف گلوکاروں کے ساتھ گٹار بجایا، ان میں نصرت فتح علی خان، حامد علی خان، راحت فتح علی خان، علی عظمت، سلیم جاوید، نجم شیراز، حدیقہ کیانی، زوہیب حسن، شفقت امانت علی سمیت کئی اور فنکار ہیں، جبکہ انہوں نے مختلف بینڈز کے ساتھ بھی کام کیا جن میں وائٹل سائنز، آواز، جنون، دی باربیرئینز، ایکس اٹیک، اسکریچ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کوک اسٹوڈیو سمیت کئی کمرشل میوزک پروجیکٹس میں وہ شامل رہے۔ انہوں نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA) سمیت کئی اداروں میں موسیقی کی تعلیم و تربیت دی، نئی نسل کو گٹار سکھایا۔ 2007 میں عامر ذکی کی دوسری البم ’Rough Cut‘ ریلیز ہوئی، جس میں انہوں نے گلوکارہ کے طور پر حدیقہ کیانی کو شامل کیا اور اس کی دُھنیں خود تیار کیں، یہ ان کا دوسرا البم تھا۔

عامر ذکی سے متعدد بار گفتگو ہوئی۔ میں نے ان سے انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کی دُھنوں میں اتنی تڑپ ہے، یہ کیفیت کہاں سے آئی؟ اور اس طرح کے کئی سوالات پوچھے، ان کے جوابات میں وہ سب کچھ تھا، جس کی بحیثیت انسان اس معاشرے میں رہتے ہوئے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہنے لگے ’میری موسیقی میں درد اور اداسی میرے حالات کی ہے۔ گٹار پر بجائی ہوئی دھنوں میں میر ادل دھڑکتا ہے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا، تو اپنے بڑوں سے اور پڑھائی کے ذریعے نظریات کو سمجھا، جب اس معاشرے میں بات کرنے کی کوشش کی، تو پتہ چلا، یہاں تو قدم قدم پر فرقہ پرستی، قومیت کا پرچار اور تعصب ہے، انسانیت کسی کی ترجیح میں نہیں، ان کڑوے حقائق نے میری ذاتی اور معاشرتی زندگی پر بہت اثر ڈالا۔وہ سب جو ذہن میں تصورات قائم ہوئے تھے، سب ایک ایک کر کے بکھر گئے۔ میں نے اپنے معاشرے میں ایک اجنبی کی طرح زندگی گزاری ہے، مقبولیت اپنی جگہ، مگر معاشرے میں گھلنے ملنے کو دل نہیں چاہتا۔ میں نے شاعری کی، گٹار جیسے ساز پر انسٹرومنٹل دھنیں بنائیں، کچھ گایا بھی، دوسروں کے ساتھ بھی بجایا، بس اسی طرح خود کو اپنے کام میں گم کرلیا۔ ویسے بھی اب میں زندگی کے اس موڑ پر آگیا ہوں جہاں دنیا کو سمجھایا نہیں جاسکتا، صرف سازوں کی زبان میں دل کی بات کہی جاتی ہے، جو میں نے کہہ دی ہے۔ اب لوگ میوزک دیکھنا چاہتے ہیں، مگر میوزک سننے کی چیز ہے، ایک وقت آئے گا، جب لوگ واپس میوزک کی طرف صرف اس کو سننے کی غرض سے آئیں گے۔‘

پاکستان میں سوشل میڈیا پر پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم اس وقت زوروں پر ہے۔ پھل خریدے جاسکتے ہیں، فروخت ہوسکتے ہیں، مگر کسی کی محنت کا پھل آسانی سے نہیں ملتا، عامر ذکی نے پاکستان کا پہلا انسٹرومنٹل البم ریلیز کیا۔ گٹار کی دنیا میں اول پوزیشن حاصل کی۔ مگر وہ چالاک نہیں تھا، اس کو کمرشل عیاری سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، اس نے مصائب کا بڑی دیدہ دلیری سے مقابلہ کیا۔ سب سے بڑھ کر بے حس معاشرے میں ’حساسیت ‘ کے گیت تخلیق کیے۔ وہ موسیقی کا تاجر نہ بن سکا، مگر خدمت گار بن گیا۔ پاکستان میں عوام کی اکثریت کو اس بات کی پرواہ بھی نہیں کہ کون مرگیا، وہ فروٹ بائیکاٹ کی مہم میں مصروف ہیں۔ البتہ مہذب دنیا میں عامر ذکی کے کام کو سراہا جاتا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں: عامر ذکی، پاکستان کے سب سے بڑے گٹار ہیرو

آخری اطلاع آنے تک عامر بھائی کا جسد خاکی سہراب گوٹھ ایدھی ہوم کے سردخانے میں رکھا ہوا ہے اوران کے ساتھ کام کرنے والے دنیائے موسیقی کے دوست اورمعروف گلوکار، موسیقار صرف اپنے فیس بک پر مصنوعی دکھ کا اظہار کررہے ہیں۔بناوٹی معاشرے میں اب دکھ بھی مصنوعی ہوگئے ہیں، عامر ذکی ان کی تحسین کا محتاج نہیں تھا، وہ مداحوں کے دلوں میں زندہ تھا اور زندہ رہے گا، کیوں کہ وہ صرف وہ ہی تھا۔

لیکن کسی کو اس کی زندگی میں راحت اور عزت نہیں د ے سکتے، تو کم ازکم رخصت تو ڈھنگ سے کردو!


لکھاری سے ان کی ای میل [email protected] پر رابطہ کریں

تبصرے (1) بند ہیں

زوہیب احمد Jun 03, 2017 08:10pm
ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم کسی کی تخلیقی صلاحیتوں کو قبول نہیں کرتے نا ہی ان کو سراہنا پسند کرتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ بس چمک دھمک اور پیسے کے پیچھے دیوانہ ہے۔ آپ کے پاس صلاحیت ہے اور آپ کچھ کر سکتے ہیں مگر آپ کے پاس مضبوط خاندانی اور معاشی ماضی نہیں ہے تو آپ کچھ نہیں ہیں آپ کو قبول کرنے میں لوگ ہچکچاتے ہیں۔