اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) پر ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کے الزامات کی تحقیقات مکمل کرلیں جس کی رپورٹ ممکنہ طور پر پیر (3 جولائی) کو سپریم کورٹ میں پیش کر دی جائے گی۔

ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن ونگ کے ڈائریکٹر مقصود الحسن کی سربراہی میں ایس ای سی پی پر ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی چار رکنی ٹیم نے اپنی تحقیقات کا آغاز 23 جون کو کیا تھا جسے 30 جون تک مکمل کر لیا گیا۔

ایف آئی اے ٹیم نے اپنی تحقیقات کے دوران ایس ای سی پی کے اعلیٰ افسران اور اہلکاروں سے ملاقاتیں کر کے ان سے پوچھ گچھ کی جبکہ ٹیم نے تحقیقات کے آخری گھنٹے ادارے کی آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں تحقیقات کے لیے صرف کیے۔

ایف آئی اے تحقیقات کے دوران یہ افواہیں بھی سامنے آئیں تھیں کہ ایس ای سی پی چیئر مین کے لیپ ٹاپ سمیت کئی کمپیٹر ہارڈ ویئر قبضے میں لے لیے گئے ہیں، تاہم ایس ای سی پی کے سینیئر حکام نے ان افواہوں کی تردید کردی۔

مزید پڑھیں: چیئرمین ایس ای سی پی نے جے آئی ٹی کےسامنے مطلوبہ ریکارڈ پیش کردیا

ایس ای سی پی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ادارے کے نیٹ ورک پر ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے لیے اس کا مختلف سرورز پر بیک اپ رکھا گیا ہے اور یہ سرور بیرون ملک سے چلائے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے ٹیم نے اعلیٰ عہدیداروں کے ای میل کا بھی ریکارڈ حاصل کیا جن سے پہلے ہی تفتیش کی جا چکی تھی جبکہ کئی عہدیداروں کی ای میل میں پرانے ڈیٹا کو ختم کرنے کا آپشن نہیں ہے۔

پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے ایس ای سی پی مبینہ الزام لگائے جانے کے بعد خصوصی عدالت نے ان الزامات کی چھان بین کے لیے ایف آئی اے ٹیم تشکیل دی تھی۔

ایف آئی اے میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس ایس سی پی کی جانب سے ریکارڈ میں کی جانے والی ریکارڈ کے کچھ شواہد ایف آئی اے ٹیم نے حاصل کر لیے جن کی متوسط عہدیداروں اور سینیئر اہلکاوں نے تصدیق بھی کی۔

یہ بھی پڑھیں: ایس ای سی پی ریکارڈ میں تبدیلی:تحقیقات کیلئے ایف آئی اے ٹیم تشکیل

حکام کا کہنا تھا کہ چوہدری شوگر ملز کیس کے اختتامی نوٹ 2016 میں ایس ای سی پی چیئر مین کے دفتر میں لکھے گئے جن کی ایس ای سی پی کے عہدیداروں نے بھی تصدیق کی۔

ایف آئی اے حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ایک سنگین جرم نہیں ہے لیکن اس سے ایس ای سی پی کے ملازمین کو ہراساں کرنے کی تصدیق ہوتی ہے کیونکہ ان ملازمین کو دباؤ میں لے کر دستخط کرائے گئے تھے۔

چوہدری شوگر ملز منی لونڈرنگ کیس کی افسر ماہین فاطمہ نے اختتامی نوٹس لکھے تھے جن پر اس وقت کے اینفوسمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ علی عظیم نے دستخط کیے تھے۔

تاہم اے آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2013 میں ایس ای سی پی کے قائم مقام چیئر مین طاہر محمود کا ایف آئی اے تحقیقات میں کہیں بھی ذکر نہیں کیا گیا اور وہ اس وقت کمپنی لاء ڈویژن کے کمشنر ہیں۔

مزید پڑھیں: ایس ای سی پی، ایف بی آر کی جانب سے جے آئی ٹی کے الزامات مسترد

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس موجود ثبوت ایس ای سی پی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے جانے والے تحریری جواب سے مختلف ہیں۔

ایس ای سی پی نے عدالت عظمیٰ میں اپنا جواب جمع کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چوہدری شوگر ملز کیس کی افسر ماہین فاطمہ نے کمشنر طاہر محمود کی موجودگی میں اس کیس کے حوالے سے ادارے کے چیئرمین کو وضاحت دی اور انہیں بتایا کہ یہ معاملہ 2013 میں ختم ہو چکا تھا جبکہ اس کیس کے حوالے برطانوی حکام کو بھی آگاہ کر دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اس جواب میں ایس ای سی پی نے موقف اختیار کیا تھا کہ چوہدری شوگر مل کا معاملہ ختم ہونے کے کئی عرصے بعد ظفر حجازی کو ایس ای سی پی کا نیا چیئرمین تعینات کیا گیا۔

ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے کی چار رکنی ٹیم کو حدیبیہ شوگرملز کے دستاویزات کے ریکارڈ میں میں ٹیمپرنگ کے نئے شواہد بھی ملے ہیں۔

امید ظاہر کی جارہی ہے کہ ایف آئی اے پیر (3 جولائی) کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دے گی۔


یہ خبر 2 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں