سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ( ایس ای سی پی) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ لیکس کیس کی روشنی میں تشکیل کردہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنا جواب جمع کرادیا۔

ایس ای سی پی نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اپنے جواب میں کہا ہے کہ جے آئی ٹی کے الزامات حقائق کے منافی ہیں، اس لئے مسترد کرتے ہیں۔

ایس ای سی پی کے مطابق ان کے خلاف عدم تعاون کےالزامات غلط ہیں، 9 جون کو شام 7 بجے 45 کمپنیوں کا ریکارڈ مانگا گیا جس کو 11 اور 12جون کو ہفتہ وارتعطیلات میں حاصل کر کے 13جون کو دیا گیا۔

جے آئی ٹی کی جانب سے علی عظیم اکرام کی جےآئی ٹی رکن کےطورپرنامزدگی کوبدنیتی قراردینے کوبھی مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر سپریم کورٹ کو 3 نام بھیجوا دیے گئے تھےجن میں علی عظیم کانام شامل نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما جے آئی ٹی:تحقیقات میں درپیش مسائل سے متعلق درخواست دائر

سپریم کورٹ کے رجسٹرارکی طرف سےبعد میں اضافی نام مانگے گئے جس میں 8افسران کےنام بھیجے گئے اور ان میں علی عظیم اکرم کا نام بھی دیا گیا تھا۔

وٹس ایپ کال تنازع

ایس ای پی نے واٹس ایپ کال کےتنازع میں چیرمین ایس ای سی پی کا نام لینا بھی غلط قرار دیا ہے اور کہنا ہے کہ 28اپریل کو چیرمین ایس ای سی پی کی جانب سے سپریم کورٹ کےنام خط میں اس معاملے کو اٹھایا جا چکا ہے۔

مزید پڑھیں:اٹارنی جنرل کو جے آئی ٹی کے تحفظات کا جائزہ لینے کی ہدایت

وٹس ایپ کال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر یہ سمجھا گیا کہ یہ کال امریکا سےآئی ہے تاہم بعد میں پتا چلا کہ یہ کال آئی فون سےفیس ٹائم ایپ کےذریعے کی گئی ہے اور تاحال معلوم نہیں کہ یہ کال کسی اور نے کی یا رجسٹرارسپریم کورٹ نے کی تھی۔

ایس ای سی پی کا کہنا ہے کہ کال کے تنازع کی حقیقت تحقیقات سے معلوم کی جا سکتی ہے۔

چوہدری شوگر ملز کا ریکارڈ

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں ایس ایی سی پی نے دعویٰ کیا ہے کہ جے آئی ٹی نے چوہدری شوگر ملز کا فراہم کردہ ریکارڈ درست طریقے سے نہیں پڑھا۔

ایس ای سی پی کا کہنا ہے کہ جولائی 2011 میں چیئرمین نے متعلقہ افسران کو چوہدری شوگر ملز کے خلاف کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کی اور اس معاملے کو کمیشن کے کمپنی لاء ڈویژن کے انفورسٹمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے طے کیا تھا جبکہ اس کی نگرانی سینئر ترین کمشنر طاہر محمود نے کی۔

کمپنی کو مزید وضاحت کے لیے 30نومبر 2012 کو خط لکھا گیا جس کے جواب میں ایس ای سی پی کو کمپنی کا خط 8 جنوری 2013 کو موصول ہوا جبکہ 6نومبر 2012 اور 4 جنوری 2013 کو کمپنی کی فراہم کردہ تفصیلات کا جائزہ لیا گیا جو کو اطمینان بخش قرار پائے۔

جواب میں بتایا گیا ہے کہ کمپنی کی تفصیلات کو اطمینان بخش قرار دیے جانے کے بعد آرڈیننس کے سیکشن 263 کے تحت معاملےکو نمٹا دیا گیا۔

ایس ای سی پی کا کہنا ہے کہ 21 مئی 2013 کو برطانوی ادارے کو خط لکھ کر آگاہ کیا گیا کہ تحقیقات میں معاونت کی درخواست واپس لی جارہی ہے جو پہنچے بغیر ہی واپس آگیا تاہم 22 جولائی 2013 کو ایک مرتبہ پھر خط بھجوایا۔

چوہدری شوگر ملز کی تحقیقات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ جنوری 2016 میں میڈیا میں اس انکوائری کے ذکر پر چیئرمین نے متعلقہ افسران سے معاملے پر بریفنگ لی۔

چیئرمین کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ کمپنی سے متعلق معاملات کو 2013 میں نمٹایا جا چکا ہے اور مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے۔

ایس ای سی پی کا کہنا ہے موجودہ چیئرمین کا تقرر معاملے کو نمٹائے جانے کے بہت عرصے بعد عمل میں آیا ہے جبکہ جے آئی ٹی کا معاملے کو 2016 میں نمٹانے کا الزام درست نہیں۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی پر اعتراض ٹیم کے خلاف مہم کا حصہ قرار

ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ چودھری شوگر مل کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کی ذمہ داری متعلقہ افسران کی ہے اس لیے اگر متعلقہ افسر نے کوئی کوتاہی کی تو ذمہ دار چیئرمین کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔

جے آئی ٹی کا موقف درست نہیں، ایف بی آر کا جواب

ایف بی آر نے بھی جے آئی ٹی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایف بی آر کے حوالے سے جو موقف اپنایا گیا ہے وہ درست نہیں کیونکہ ایف بی آر پہلے دن سے ہی جے آئی ٹی سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔

ایف بی آر کے سینئر کمشنرز نے خود جا کر جے آئی ٹی کو ریکارڈ پیش کیا ریکارڈ سے متعلق جے آئی ٹی کے تمام سوالوں کے جواب دیے۔

ایف بی آر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے 8، 25 اور 29 مئی اور8 جون کو خطوط لکھے۔

یہ بھی پڑھیں:نیشنل بینک کے صدر بھی پاناما جے آئی ٹی ارکان کے رویے سے نالاں

جے آئی ٹی کی جانب سے 8 مئی کوچھ افراد کی1985کے بعدکی انکم،ویلتھ ٹیکس ریٹرن مانگی گئیں جس کے جواب میں دو افراد کا1985 سے اب تک کا ریکارڈ سات دن میں فراہم کر دیا اور باقی چار افراد نے بعد سے ریٹرن فائل کیں، ان کا ریکارڈ بعد کے برسوں سے فراہم کیا گیا۔

25مئی کو لکھے گئے خط میں مزید دس افراد کا ریکارڈ مانگ لیا گیا اور ان دس افراد کا ریکارڈ پانچ دن کے اندر فراہم کر دیا گیا۔

ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے 29 مئی کو 6 افراد کا ریکارڈ دوبارہ بھجوانے کی ہدایت کی جس کو تین روز میں دوبارہ بھیجوا دیا گیا۔

جے آئی ٹی نے 8 جون کو مزید ایک شخص کا ریکارڈ مانگ لیا اور 1974سے بعد کا ٹیکس ریکارڈ دینے کی ہدایت کی جس کو 12 جون کو فراہم کردیا گیا۔

ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے مختلف اوقات میں ریکارڈ طلب کیا اس لیے ٹکڑوں میں فراہم کیا گیا جبکہ کچھ ریکارڈ ایف بی آر میں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے پیش نہیں کیا جا سکا۔

ریکارڈ کی عدم موجودگی کے حوالے سے ایف بی آر کا کہنا ہے کہ بعض ادوار میں انفرادی طور پر ویلتھ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا قانون ہی نہیں تھا اور کچھ افراد بطور ٹیکس دہندہ رجسٹر ہی نہیں تھے جبکہ بعض افراد نے کچھ برسوں میں ریٹرن فائل نہیں کیں اور 2001 کے بعد ویلتھ ٹیکس کا قانون ہی ختم ہو گیا۔

ایف بی آر کا کہنا ہے کہ قانون کے تحت ٹیکس دہندگان صرف چھ سال کا ریکارڈ رکھنے کے پابند ہیں اس لیے ذیلی دفاتر کو کئی مرتبہ پرانا ریکارڈ تلف کرنے کی ہدایت کی گئی اور جے آئی ٹی کو دیے گئے جواب میں اس نکتے کو نہیں اٹھایا گیا تھا۔

جواب میں ایف بی آر کا کہنا ہے کہ پرانے ریکارڈ کی تلاش کےلیے خصوصی افسران نامزد کئے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی جانب سے تفتیش میں کھڑی کی جانے والی رکاؤٹوں کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ پر اٹارنی جنرل کو معاملے کو دیکھنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں:حکومتی ادارے تحقیقات میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں: جے آئی ٹی

جے آئی ٹی کی رپورٹ میں اداروں کی جانب عدم تعاون اور ریکارڈ میں ردوبدل کا الزام لگایا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کی جانے والی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے الزام لگایا کہ ایس ای سی پی، نیب، ایف بی آر اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ریکارڈز کی حوالگی میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں جبکہ یہ تمام ادارے متعلقہ دستاویزات میں جعلسازی اور چھیڑ چھاڑ کے بھی مرتکب ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں