اسلام آباد: سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کے کاروبار کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں شامل دستاویزات کے مطابق نواز شریف نے کیپٹل ایف زیڈ ای کے چیئرمین کی حیثیت سے تنخواہ وصول کی۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں فیصلہ سنانے والا 5 رکنی بینچ ان دنوں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں نواز شریف اور ان کے بچوں کی جانب سے 28 جولائی کے فیصلے کے حوالے سے دائر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کررہا ہے، اس بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز افضال، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔

پاناما پیپرز کیس کے فیصلے سے متعلق دائر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس اعجاز افضال کا کہنا تھا کہ ملازمت کے معاہدے کے مطابق تنخواہ کی مد میں 10 ہزار درہم کی رقم نواز شریف کو بھجوائی گئی تھی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’جے آئی ٹی دستاویزات کے مطابق نواز شریف کے پاس مذکورہ تنخواہ کو وصول کرنے والا ایک اکاونٹ موجود تھا‘، ان کا مزید کہنا تھا کہ حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق نواز شریف کی پہلی تنخواہ یکم اگست 2013 کو نکالی گئی۔

مزید پڑھیں: ’پاناما کیس میں تمام ججز نوازشریف کی نااہلی پرمتفق تھے‘

اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ان کے موکل نے ملازمت کے معاہدے سے انحراف نہیں کیا لیکن اس حوالے سے ان کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔

جس پر جسٹس اعجاز افضال نے کہا کہ ’سوال یہ ہے کہ عدالت زبانی یہ کیسے تسلیم کرلے کہ نواز شریف نے تنخواہ وصول نہیں کی؟‘، ان کا کہنا تھا کہ ثبوتوں کی جانچ کے بغیر یہ بیان نا قابل قبول ہے۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ ہر تنخواہ کو اثاثہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور کہا کہ نہ ہی تنخواہ کیش یا بینک میں جمع کرائی گئی۔

جسٹس سعید نے کہا کہ ’اگر کوئی شخص ایک رقم ادا کرکے برگر کھاتا ہے تو اثاثہ برگر بیچنے والے کی ملکیت بن جائے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس فیصلہ: نواز شریف نے نظرثانی اپیلیں دائر کردیں

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوتا، جس پر جسٹس اعجاز افضال کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ نقطہ کل دو مرتبہ نوٹ کیا، آج تیسری مرتبہ پھر نوٹ کر لیتے ہیں۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ مجھے کوئی عدالتی نظیر نہیں ملی جس میں اثاثے ظاہر نہ کرنے پر62 ون اے کا اطلاق کیا گیا ہو اور جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ رپورٹ نامکمل ہے۔

جسٹس اعجاز افضال کا کہنا تھا کہ ہم نے جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں سزا نہیں دی اور ہم نے یہ نہیں لکھا کہ رپورٹ کی روشنی میں نواز شریف کے خلاف کارروائی کی جائے، ہم اس رپورٹ کو موثر شواہد کے طور پر تسلیم نہیں کرتے جبکہ آپ کو نیب عدالت میں اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیب کی ناکامی کے باعث یہ مقدمہ سپریم کورٹ آیا، نیب چیئرمین نے کھلی عدالت میں کہا تھا کہ ہم کارروائی نہیں کریں گے۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 20 اپریل کے فیصلے میں گارڈ فادر لکھا، سپریم کورٹ کو 28 جولائی کے فیصلے میں لکھنا چاہیے تھا کہ یہ فیصلہ 20 اپریل کے اکثریتی فیصلے کا تسلسل ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق 30 دن میں ٹرائل مکمل کیا جائے، اگر ٹرائل کورٹ مناسب سمجھے تو مزید وقت کی درخواست کی جا سکتی ہے۔

ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد مذکورہ کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف یہ پہلا کیس نہیں ہے، ماضی میں بھی نواز شریف کے خلاف مقدمات چلتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب نواز شریف کے خلاف قانونی تقاضوں کے برخلاف مقدمات چلے اسی سپریم کورٹ نے انھیں بچایا اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نواز شریف کو اسی کورٹ سے ریلف ملا تاہم ’یہ تاثر نہ دیں کہ سپریم کورٹ مدعی بن گئی ہے، ہر شہری کے بنیادی حقوق کا سپریم کورٹ نے تحفظ کرنا ہے‘۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ضیاء الحق نے سر عام پھانسیاں دینا شروع کی تو ایمنسٹی انٹرنیشل نے سپریم کورٹ کو خط لکھا، سپریم کورٹ نے اس خط پر ازخود نوٹس لیکر سرِعام پھانسیوں کو روک دیا اور سپریم کورٹ نے ابزرویشن دی کہ پھانسی پانے والا بے شک مجرم ہے لیکن حقوق کا تحفظ سپریم کورٹ پر فرض ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا

ان کا کہنا تھا کہ آپ حکومت میں ہیں، آئین و قانون کو بدل سکتے ہیں تاہم ہم آئین کے ہر فل سٹاپ اور قومہ کے پابند ہیں تاہم آج ضیاء الحق کے دور جیسی صورتحال نہیں۔

اس کے بعد اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل مکمل کیے جبکہ مریم، حسن اور حسین نواز کے وکیل کل دلائل کا اغاز کریں گے۔

پاناما نظر ثانی کیس فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت جمعہ 15 ستمبر کی صبح تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں