سابق وزیراعظم نواز شریف نے پاناما کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے اپنی نااہلی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کے لیے تین اپیلیں دائر کر دیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی گئی ہیں اور ممکنہ طور پر سپریم کورٹ کی جانب سے 28 جولائی کو حتمی فیصلہ سنانے والا پانچ رکنی لارجربنچ ہی نظر ثانی اپیل کی سماعت کرے گا۔

سابق وزیراعظم کی جانب سے دائر کی گئی تین اپیلوں میں سے ایک میں درخواست کی گئی ہے کہ نظر ثانی اپیلوں کے فیصلے تک پاناما کیس کے فیصلے پر مزید عمل درآمد کو روک دیا جائے۔

خواجہ حارث نے اپیلوں کے ساتھ متحدہ عرب امارات میں ورک ویزا کے لیے اقامہ سے متعلق دیگر دستاویزات بھی جمع کرادی ہیں جس کی بنیاد پر نواز شریف کو 'نااہل' قرار دیا گیا تھا۔

نواز شریف نے درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ 20 اپریل کے فیصلے کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کا دائرہ کار ختم ہوگیا تھا اس لیے 28 جولائی کا فیصلہ تین رکنی بنچ کو کرنا چاہیے تھا۔

ڈان کو نظر ثانی اپیل سے متعلق موصول دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ '28 جولائی کے دستخط شدہ حتمی فیصلے کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے دراصل ایک ہی مقدمے میں دو مرتبہ فیصلہ سنایا جس کی مثال عدلیہ کی تاریخ میں نہیں ہے'۔

نظر ثانی اپیل کے مطابق 'ریکارڈ میں اس مقدمے میں چار حتمی فیصلے دیے گئے، پہلا فیصلہ 20 اپریل کو پانچ رکنی بنچ کے دو ججوں کا اقلیتی فیصلہ، دوسرا فیصلہ 20 اپریل کو ہی بنچ کے 3 ججوں کا اکثریتی فیصلہ، 28 جولائی کو اس عدالت کے تین رکنی بنچ کا دوبارہ فیصلہ آیا اور چوتھا اور حتمی فیصلہ 28 جولائی کو بنیادی پانچ رکنی بنچ کا تھا'۔

نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر 3 نظرثانی اپیلوں میں کہا گیا کہ پاناما کیس کا فیصلہ قانون کے خلاف اور حقائق کے منافی ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے موقف اختیار کیا کہ جس بنیاد پر انہیں نااہل کیا گیا، وہ درخواست میں شامل نہیں تھا جبکہ اثاثے ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے متعلقہ فورم موجود ہے۔

دوسری جانب درخواست میں عدالتی فیصلے کے پیراگراف نمبر 6 کو حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دینا اختیارات سے تجاوز ہے۔

سابق وزیراعظم نے موقف اختیار کیا کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں حقائق کو مدنظر نہیں رکھا لہٰذا سپریم کورٹ کے فاضل ججوں پر مشتمل بینچ کی جانب سے نواز شریف کو نااہل اور ان کے خلاف نیب میں ریفرنسز دائر کرنے کے حکم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

ساتھ ہی درخواست میں استدعا کی گئی کہ پاناما کیس میں نواز شریف کے خلاف عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی درخواستوں پر الگ الگ نظر ثانی کی جائے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا تھا، جب کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت ان کے خاندان کے افراد کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

ملکی تاریخ کے اس سب سے بڑے کیس کا حتمی فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سنایا تھا۔

25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے 5 جج صاحبان کی جانب سے سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ نواز شریف نے ’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، وہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ’ٹو ایف‘ اور آرٹیکل 62 کی شق ’ون ایف‘ کے تحت صادق نہیں رہے، لہذا نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیا جاتا ہے۔

عدالتی بینچ نے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا۔

نواز شریف کی سبکدوشی کے بعد ترجمان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر باضابطہ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 'پٹیشن کے اندراج کے فیصلے سے لے کر فیصلے تک مختلف مراحل پر شدید تحفظات کے باوجود اس فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے گا'۔

ترجمان نے مزید کہا تھا کہ فیصلے کے بارے میں شدید تحفظات کے حوالے سے تمام آئینی و قانونی آپشنز استعمال کیے جائیں گے۔

پاناما انکشاف

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، سابق وزیراعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

ملکی سیاست میں ہلچل اور سپریم کورٹ میں کارروائی

پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور سابق وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں سابق وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی خطاب کیا اور پاناما لیکس کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کے لیے رضامند ہیں، تاہم اس کمیشن کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہوسکا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: عدالتی فیصلے سے قبل قیاس آرائیاں عروج پر

بعدازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے نواز شریف کی پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں ان کے خلاف نااہلی کی پٹیشن دائر کردی، ان کا مؤقف تھا کہ نواز شریف نے ایوان میں متضاد بیانات دیے، چنانچہ اب وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

پی ٹی آئی کے علاوہ جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے بھی پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد رواں سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔

جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد رواں برس 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔

جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پانچ سماعتوں کے دوران فریقین کے دلائل سنے اور 21 جولائی کو پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 28 جولائی کو سنایا گیا اور نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

SHARMINDA Aug 15, 2017 05:24pm
Review may end-up to stricter punishment like imprisonment.