اسلام آباد: پالیمانی کمیٹی برائے احتساب قوانین ملک میں بد عنوانی کے خلاف قانون کے نفاذ سے متعلق کسی بھی قسم کے فیصلے پر پہنچنے میں ناکام ہوگئی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی کی جانب سے نئے قومی احتساب کمیشن (این اے سی) بل کی مخالفت پر اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پیش کیے گئے بل میں ہر شق پر ووٹ کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ قومی احتساب کے ادارے (نیب) کے آرڈیننس 1999 کو این اے سی بل سے تبدیل کرنے کے بجائے اصل حالت میں بحال رکھا جائے۔

واضح رہے کہ رواں ماہ پارلیمانی کمیٹی کے چوتھے اجلاس کے بعد بھی احتساب قانون پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔

مزید پڑھیں: احتساب قانون میں ترمیم پر سینیٹ ارکان ایک مرتبہ پھر تقسیم

پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین زاہد حامد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ این اے سی بل پر 27 نومبر کے اجلاس میں ہر شق پر ووٹ کے عمل کے بعد فیصلہ کیا جائے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ دو پارلیمانی جماعتوں کے علاوہ دیگر تمام جماعتوں نے نئے احتساب قانون کی حمایت کی ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے سینیٹر فرحت اللہ بابر کو پی پی پی رہنما نوید قمر اور سینیٹر فاروق نائیک سے تبدیل کیے جانے کے بعد سے اجلاس میں دوسری مرتبہ کسی بھی نمائندے کی شرکت سامنے نہیں آئی۔

یاد رہے کہ پی پی پی نے کمیٹی کے 15 ویں اجلاس میں اپنے بل میں ججز اور جنرلز کے احتساب میں شمولیت کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرلیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: احتساب قانون کے دائرہ کار سے ججز اور جرنیلوں کو خارج کرنے کی مخالفت

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ مجھے حیرت ہے کہ مستقل دوسرے اجلاس میں بھی پی پی پی کے کسی رہنما نے شرکت نہیں کی۔

اجلاس میں شریک ہونے والے دیگر شرکاء میں تحریک انصاف کی شیرین مزاری، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سید اقبال قادری، مسلم لیگ نواز کے سینیٹر سعود مجید اور جمعیت علماء اسلام (ف) کی نعیمہ کشور شامل تھیں۔

خیال رہے کہ 16 ویں اجلاس میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت کمیٹی کے شرکاء اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ ججز اور جنرلز کو احتساب قانون کے دائرے میں نہیں لایا جائے گا۔

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مطابق نئے احتساب قانون کو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کو بچانے کے لیے نئے قانون کا نفاذ کیا جارہا ہے۔

سیاسی جماعت کے رہنماؤں میں کسی ملزم کے خلاف کرپشن ریفرنسز درج کیے جانے کے طریقہ کار میں بھی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا۔

مزید پڑھیں: قومی احتساب کمیشن کی سربراہی کیلئے ’جج‘ کے تقرر کی تجویز پیش

تحریک انصاف نے رضاکارانہ طور پر کرپشن کے پیسے واپس کرنے کی شق پر سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ مجرمان کو ان کے غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی رقم واپس کردینے پر ان کی سزا کو 14 سال سے کم کرکے 7 سال کرنے کی پیشکش پر بھی اعتراضات اٹھائے۔

خیال رہے کہ قومی احتساب ادارے کے آرڈیننس کے سیکشن 25 کے تحت احتساب عدالت کی اجازت سے نیب چیئرمین کسی بھی مجرم کو پلی بارگین یا غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی رقم نیب کو لوٹانے پر رہا کیے جانے کے احکامات دے سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کی جانب سے ایک اور مجوزہ شق پر اعتراض اٹھایا گیا جس کے مطابق ایک سال سے زائد عرصے سے حراست میں ملزمان جن کا ٹرائل کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ہو، کو ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔


یہ خبر 23 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں