اسلام آباد: فوج کے ججز ایڈووکیٹ جنرل (جے اے جی) برانچ کے سابق افسران کی ایسوسی ایشن ایکس سروس مین لیگل فورم (ای ایس ایل ایف) نے مجوزہ قومی احتساب کمیشن (این اے سی) کے دائر کار سے ججز اور جرنیلوں کو نکالنے پر تشویش کا اظہار کردیا۔

ای ایس ایل ایف ان ریٹائر افسران پر مشتمل ایک ایسوسی ایشن ہے جو ریٹائر منٹ کے بعد عدالتوں میں اپنی پریکٹس کا آغاز کرتے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی رجسٹری میں ہونے والے ایک اجلاس میں مذکورہ فورم کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ایک قرار داد منظور کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پارلیمنٹ مجوزہ احتساب بل میں سینئر ججز اور فوجی افسران کو بھی شامل کرے۔

خیال رہے کہ پارلیمنٹ کمیٹی کی جانب سے تجویز کیے جانے والے بل کے حوالے سے حالیہ اعلان کے مطابق سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر کمیشن کے دائر کار سے ججز اور جرنیلوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کیلئے دائر درخواست پر اعتراض

یاد رہے کہ ابتداء میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور جماعت اسلامی نے این اے سی بل پر اعتراض اٹھایا تھا اور بظاہر ججز اور جرنیلوں کے احتساب کو بھی قانون کا حصہ بنانے پر زور دیا تھا۔

2 نومبر کو پی پی پی سینئر ججز اور فوجی افسران کو احتساب کے دائر کار میں لانے کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی تھی جبکہ مسلم لیگ (ن) نے ججز اور جرنیلوں کے احتساب کے لیے انہیں کمیشن کے دائرکار میں لانے کی مخالفت کی تھی۔

ادھر اپنی قرار داد میں ای ایس ایل ایف کا کہنا تھا کہ سول اور سیشن کورٹ سمیت چھوٹی عدالتوں کے ججز کو احتساب قانون کے دائر کار میں لایا گیا ہے جبکہ سینئر ججز کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، اسی طرح مجوزہ قانون سے سینئر فوجی افسران کو بھی نکال دیا گیا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ملزم جج صاحبان کا ٹرائل سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'ججوں، جرنیلوں پر نئے احتساب قانون کا اطلاق نہیں ہوگا'

قرار داد میں موقف اختیار کیا گیا کہ 1973 سے اب تک ایک بھی جج کو کرپشن کے الزام میں سزا نہیں دی گئی لیکن اس کونسل کو 2015 میں بحال کیا گیا اور سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے حکم پر موجودہ ججز کے خلاف دائر درخواستوں پر کارروائی کی گئی۔

ای ایس ایل ایف نے الزام لگایا کہ جن ججز پر کرپشن کا الزام ہے انہیں مستعفی ہونے کی اجازت دی گئی اور انہیں پینشن کی مد میں خطیر رقم اور پوسٹ ریٹائرمنٹ کے تمام فوائد بھی دیئے گئے کیونکہ ججز کے خلاف دائر ریفرنس کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ناقابل قبول قرار دے دیا جاتا ہے۔

اسی طرح فوج اپنے اہلکاروں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کرتی ہے، قرار داد میں کہا گیا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی جانب سے عہدوں سے ہٹائے گئے سینئر فوجی افسران، جن میں ایک لیفٹننٹ جنرل اور ایک میجر جنرل شامل ہیں، کو ان کے ریٹائرمنٹ سے متعلق دیگر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: جج اور جنرل کے احتساب کیلئے آئینی درخواست دائر

قرار داد میں مزید کہا گیا ہے کہ احتساب قانون کے دائرکار میں ججز اور جرنیلوں کو نہ لانا قانون کی اصل شکل کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، اور یہ کسی بھی ایسے معاشرے میں نہیں کیا جاسکتا جہاں قانون کی بالا دستی کی بات کی جاتی ہو‘۔

اس میں مزید کہا گیا کہ معاشرے کے دیگر طبقوں کی طرح سینئر ججز اور فوجی افسران قانون سے بالا تر نہیں، اور ایک وقت آئے گا جب کرپشن میں ملوث تمام افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔


یہ رپورٹ 5 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Nov 05, 2017 07:18pm
احتساب کا قانون موجود ہے نیا قانون نہ ہی بنایا جائے تو بہتر ہوگا۔ خیرخواہ