کراچی: سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤانوار کو جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ محسود کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے الزام میں 21 اپریل تک کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

مقتول نقیب اللہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے الزام میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو غیر معمولی سیکیورٹی میں کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی منتظم عدالت میں پیش کیا گیا۔

اس موقع پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) اور اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) تھانہ پریڈی نے سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا جبکہ پولیس کی بھاری نفری سندھ ہائی کورٹ کے اندر اور اطراف میں تعینات رہی۔

پولیس نے عدالت میں راؤ انوار کی غیر قانونی اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد کے جعلی مقابلے میں راؤ انوار کی گرفتاری ظاہر کردی۔

پولیس حکام نے عدالت سے راؤ انوار کا جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سابق ایس ایس پی ملیر سے جعلی مقدمے میں تفتیش کرنا ہے۔

خیال رہے کہ ملزم راؤ انوار سمیت دیگر پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ شاہ لطیف تھانے میں ایس ایس پی عابد قائمخانی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان نے نقیب اللہ سمیت 4 افراد کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کروایا۔

واضح رہے کہ پولیس نے مقدمے میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار، ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت، ڈی ایس پی قمر احمد کو نامزد کیا تھا۔

علاوہ ازیں اس مقدمے میں ایس ایچ او شعیب شیخ عرف شعیب شوٹر، فدا حسین سمیت 12 ملزمان نامزد ہیں ۔

آیف آئی آر میں کہا تھا کہ ملزمان نے نقیب اللہ و دیگر پر اسلحہ ایکٹ، دھماکہ خیز مواد کے جھوٹے مقدمات درج کیے تھے، جبکہ مقتولین سے برآمد ہونے والا اسلحہ بھی ملزمان کا تھا۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

مزید پڑھیں: راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے انٹیلی جنس اداروں سے مدد طلب

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

از خود نوٹس کیس کی اب تک کی سماعت

واضح رہے کہ 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا از خود نوٹس لے لیا۔

23 جنوری کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس کے لیے مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس سے 7 روز میں واقعے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

26 جنوری کو نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کی تفتیش کرنے والی ٹیم نے 15 صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں مقابلے کو یک طرفہ قرار دیا گیا تھا۔

27 جنوری کو سپریم کورٹ نے معطل سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لئے انسپکٹر جنرل (آئی جی ) سندھ اللہ ڈنو خواجہ کو 3 دن کی مہلت دی تھی۔

یکم فروری کو عدالت نے راؤ انوار کا پیغام میڈیا پر چلانے پر پابندی لگاتے ہوئے ملزم کی تلاش کے لیے ڈی جی ایف آئی اے کو انٹرپول کے ذریعے دنیا بھر کے ایئرپورٹس سے رابطہ کرنے کا حکم دے دیا۔

13 فروری کو سپریم کورٹ نے راؤ انور کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی تھی جبکہ ان کی گرفتاری عمل میں نہ لانے کی ہدایت دیتے ہوئے انہیں 16 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

16 فروری کو راؤ انوار حفاظتی ضمانت کے باوجود عدالت عظمیٰ میں پیش نہیں ہوئے تھے جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے راؤ انوار کو عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں کو ان کی تلاش کا حکم دیا تھا۔

5 مارچ کو عدالت عظمیٰ نے ملیر راؤ انوار کو تلاش کرنے سے متعلق خفیہ ایجنسیوں کو ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

14 مارچ کو راؤ انوار نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر اپنے بینک اکاؤنٹ کھولنے کی استدعا کی تھی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 16 مارچ کو ہونے والی سماعت کے دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو نقیب اللہ محسود قتل کیس میں مفرور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے 2 روز کی مہلت دی تھی۔

واضح رہے کہ 21 مارچ کو نقیب اللہ محسود قتل سے متعلق از خود نوٹس کیس میں سابق ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں عدالت کے حکم پر گرفتار کرلیا گیا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیشی

بعدِ ازاں پولیس راؤ انوار کو نجی ایئرلائن کے ذریعے اسلام آباد سے کراچی لے آئی، اور 22 مارچ کو کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کیس میں 30 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں