واشنگٹن: افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر محمد حنیف اتمر کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو وہ دہشت گردوں کے ان راستے بند کرکے افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کر سکتا ہے جس کے ذریعے وہ جنگ زدہ ملک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاہم پاکستان کے وزیردفاع خرم دستگیر نے افغانستان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کا تقریباً آدھا علاقہ دہشت گردوں کے کنٹرول میں ہے، اور دہشت گردوں کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کی ضرورت نہیں ہے۔

خیال رہے کہ دونوں رہنما کی جانب سے یہ دعویٰ وائس آف امریکا کے پروگرام میں اس وقت سامنے آئے جب ایک اعلیٰ امریکی حکام ایلس ویلز پاکستانی حکام سے بات چیت کرنے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہے۔

واشنگٹن میں امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ایلس ویلز نے کابل سے اسلام آباد کا دورہ کیا جہاں انہوں نے جنوبی ایشیا کے لیے حکمت عملی پر بات چیت کی اور پاکستانی حکام نے بھی ملک میں موجود دہشت گردوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے افغانستان کو مصالحتی عمل میں حمایت کی یقین دہانی کرادی

افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر محمد حنیف اتمر کا کہنا تھا کہ طالبان کے بغیر افغانستان میں کوئی بیرونی جنگجو نہیں ہوں گے اور پاکستان میں طالبان کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کے بغیر طالبان عسکریت پسندی نہیں ہوگی۔

پاکستان کے وزیردفاع خرم دستگیر نے افغان حکام کی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ افغانستان کے 45 فیصد علاقے کو کنٹرول نہیں کر سکتے، اور نہ ہی آپ یہ جانتے ہیں کہ ان علاقوں میں کون رہ رہا ہے، کون آرہا ہے، کون جارہا ہے لیکن پھر بھی آپ ہم پر الزام لگاتے ہیں‘۔

وائس آف امریکا کے ان علیحدہ علیحدہ انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے جنوبی ایشیا کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی نے افغانستان کے بنیادی چیلنجز کو تبدیل نہیں کیا اور نہ ہی مسلح عسکریت پسندوں نے جنگ میں ہتھیار ڈالے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی پاکستان کو ‘دوطرفہ جامع مذاکرات’ کیلئے دورہ کابل کی دعوت

محمد حنیف اتمر کا کہنا تھا کہ شام اور عراق سے جنگجو پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہورہے ہیں، اور ملک میں غیر ملکی جنگجوؤں کا اضافہ ہورہا ہے۔

وائس آف امریکا کے مطابق یہ جنگجو نہ صرف افغان طالبان کی تحریک میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں بلکہ یہ القاعدہ، اسلامک موومنٹ ازبکستان، مشرقی ترکستان اسلامی موومنٹ، لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد جیسے گروپوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔

افغان قومی سلامتی کے مشیر نے دعویٰ کیا کہ دہشت گردوں کی آمد کے بعد سے افغانستان میں دہشت گردی کے طریقہ کار میں تبدیلی آرہی ہے کیونکہ یہ گروپ آپس میں اور طالبان کے ساتھ نئے تعلقات استوار کر رہے جو انہیں مجموعی طور پر اس پیش رفت سے فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ‘افغان جنگ جیتنے کی ضد چھوڑ کر اس کے اختتام کی بات کریں‘

انہوں نے کہا کہ ان جنگجوؤں کے طالبان، حقانی نیٹ ورک اور ڈرگ مافیا کے ساتھ زیستانہ تعلقات ہیں، جہاں غیر ملکی جنگجوؤں کے لیے طالبان ان کے لیے میزبان اور محافظ ہیں جبکہ طالبان کو ان کے مہارت، وسائل اور معلومات کی ضرورت ہے۔

افغان قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا تھا کہ صرف پاکستان ہی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرکے اس انتظام کو ختم کر سکتا ہے۔

پاکستانی وزیر دفاع خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کی تمام پناہ گاہوں کو ختم کرکے طالبان کو افغانستان بھاگنے پر مجبور کردیا جہاں ان کے پاس چھپنے، دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے کافی جگہ موجود ہے۔


یہ خبر 30 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں