شام: کیمیائی ہتھیاروں کے انسپکٹرز تحقیقات کیلئے دومہ میں داخل

اپ ڈیٹ 18 اپريل 2018
دمشق میں اقوام متحدہ کی گاڑی میں انسپکٹرز حکومتی ادارے کا دورہ کرنے جارہے ہیں — فوٹو: رائٹرز
دمشق میں اقوام متحدہ کی گاڑی میں انسپکٹرز حکومتی ادارے کا دورہ کرنے جارہے ہیں — فوٹو: رائٹرز

دمشق: بین الاقوامی تحقیق کاروں کی ٹیم شام میں مبینہ کیمیائی حملے کا شکار بننے والے علاقے میں کئی دن کے تعطل کے بعد داخل ہوگئی۔

دمشق کے قریب دومہ میں مشتبہ طور پر 7 اپریل کو ہونے والے گیس حملے میں 40 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے جس کا ذمہ دار مغربی قوتوں کی جانب سے شامی صدر بشار الاسد کو ٹھہرایا جارہا تھا۔

ان الزامات کے پیش نظر امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شامی فوج کے ٹھکانوں پر میزائل حملے کیے تھے تاہم پیرس کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ یہ معاملہ عزت کا تھا اور اس سے کچھ حل نہیں ہوسکا۔

مزید پڑھیں: شام میں کیمیائی حملے ناقابل معافی جرم، جیمز میٹس

شام کے سرکاری خبر رساں ادارے ثناء نے کیمیائی ہتھیار کے روک تھام کے ادارے (او پی سی ڈبلیو) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے ماہرین کی کمیٹی دومہ میں داخل ہوگئی ہے۔

انسپکٹرز مغربی حملے کے وقت دمشق میں داخل ہوئے تھا تاہم انہیں دومہ جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

فرانس اور امریکا نے اس مشن پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے مشن کا اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اب تک تمام شواہد مٹا دیئے جا چکے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ نے شام میں کیمیائی حملے کا ڈرامہ رچایا:روس

فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ روس اور شامی فوج کے زیر کنٹرول علاقے میں اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ شواہد مٹا دیئے گئے ہوں گے۔

او پی سی ڈبلیو کے لیے امریکی سفیر کین وارڈ نے دعویٰ کیا کہ علاقے کو اب تک تبدیل بھی کیا جاچکا ہوگا۔

روسی وزارت خارجہ کے ترجمان ماریا زاخارووا نے فرانس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ الزامات حیران کن ہیں، روس نے ہمیشہ تحقیق کی حمایت کی ہے۔

مزید پڑھیں: شام میں ’کیمیائی حملے‘ کی تحقیقات کیلئے قرار داد، روس نے ویٹو کردی

تاہم دیگر کئی ماہرین نے بھی کہا کہ اب تحقیقات کرانا نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گی۔

یورپی پارلیمنٹ میں اپنے دفاع میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اعتراف کیا تھا کہ ہفتے کے روز شام پر ہونے والے حملے کا فیصلہ فوج سے زیادہ سیاسی تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے میں 3 ممالک نے مداخلت کی اور بلا ججھک اور ایمانداری سے بتاؤ تو یہ بین الاقوامی برادری کی عزت کے لیے کیا گیا تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ’شام میں کیمیائی حملے کے جواب میں تمام آپشن زیر غور‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’حملوں سے کچھ حل نہیں ہوا لیکن یہ بہت ضروری تھے‘۔

فرانسیسی حکمراں 2001 میں سابق صدر جیکوئس چراک کی جانب سے شامی صدر بشارالاسد کو دیے گئے اعزازی ایوارڈ کو بھی واپس لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔

فرانسیسی صدر کے دفتر نے اس بات کی تصدیق کی کہ لیجن ڈی آنر کو واپس لینے کے لیے تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: شام میں کیمیائی حملہ: یورپی ممالک کا سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا مطالبہ

واضح رہے کہ روس کے حمایت یافتہ ملک شام اور مغرب کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے اور دونوں جانب سے حملوں کے بعد سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

علاوہ ازیں شامی مبصرین برائے انسانی حقوق کے مطابق دمشق کے قریب حمس شہر کے شیرات بیس کے قریب دھماکوں کی آواز سنی گئی تھی۔

بعد ازاں ثناء نے ان رپورٹس کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ شام میں بیرونی حملہ نہیں کیا گیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 18 اپریل 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں