بطور والد یا والدہ ہم سب کے پاس بچوں کو نظم و ضبط کی تلقین کرنے کے ڈھیروں طریقے تو موجود ہی ہوتے ہیں، لہٰذا اس تحریر میں آپ کو بچوں کو نظم و ضبط اور آداب سکھانے کا فلسفہ بیان نہیں کیا جائے گا بلکہ یک سطری یا ون لائنر جملے بتائے جائیں گے جن کی مدد سے آپ بہتر تربیت دے سکتے ہیں۔

بچوں کے احساسات کو سمجھنے کے لیے ان کے ساتھ لمبی لمبی گفتگو یا بحث کی وجہ سے وہ لفظوں کے سمندر میں الجھ جاتے ہیں اور انہیں وہ پیغام ہی نہیں مل پاتا جو آپ ان تک پہچانا چاہتے ہیں۔ اس قسم کی بحث کی وجہ سے بچہ اور آپ دونوں ہی تھک جائیں گے اور فائدہ کچھ نہیں ہوگا۔ لہٰذا ماہرین کا کہنا ہے کہ جملوں کو مختصر رکھیں تاکہ بچے کا ذہن آپ کے پیغام کو بہتر انداز میں سمجھ سکے۔ ماہرین کے مطابق بچوں کے ذہن طویل گفتگو کو پروسس نہیں کرپاتے۔

ہم یہاں چند ایسے سادہ اور یک سطری جملوں کو پیش کر رہے ہیں جن کے استعمال سے کئی والدین نے بچوں کو نظم و ضبط اور ادب و آداب سکھانے میں کافی مدد حاصل کی۔

مزید پڑھیے: دباؤ کے سبب خود کو اذیت پہنچانے والے بچوں کے والدین کیا کریں؟

’مجھے معلوم ہے، کافی پریشانی ہوتی ہے‘

بچوں کے ساتھ مخلصانہ لہجے میں ایسا کہیں اور اس کے کندھے پر تھپکی ماریں، تو جلد ہی جذباتی بن جانے والے اور دل پر لینے والے بچے کو کافی تسلی ملتی ہے۔ کیونکہ اس طرح آپ اس پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہاں جب موزا ’غلط پیر‘ میں پہنا ہوا ہو تو یہ کافی پریشانی پیدا کرتا ہے۔ ان کے جذبات کو صحیح قرار دینے سے آپ بچے کو مشکل احساسات سے باہر نکلنے میں مدد کرتے ہیں۔

’آہستہ چلو، پلیز!‘

چھوٹے بچوں کو مثبت سمت پر گامزن کیا جائے تو کسی قسم کے بحث میں پڑنے کی وجہ ہی ختم ہوجائے گی۔ ’آپ جب کہتے ہیں کہ، ’بھاگو مت!‘ یا ‘بحث مت کرو‘ تو اس طرح نہ صرف آپ کا بچہ چلنا یا جو کام کر رہا ہوگا وہ بند کردے گا بلکہ وہ اپنا ردِعمل دینے کے مختلف طریقے ڈھونڈنے لگے گا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ تاہم جب اسے کہا جائے کہ ‘آہستہ چلو‘ یا ‘کہو، ٹھیک ہے مما!‘ تو انہیں پتہ ہوگا کہ انہیں آگے کیا کرنا ہے۔

’پھر سے کوشش کرو‘

وہ بچے جو کئی قسم کے ناخوشگوار رویوں، جیسے چیخنا چلانا، کسی سے کھلونا چھین لینا یا پھر بدتمیزی وغیرہ، روا رکھتے ہیں ان کے لیے یہ جملہ کافی اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔ بچے اس وقت کافی کو آپریٹو بن سکتے ہیں جب انہیں احساس ہوجائے کہ صورتحال میں وہ غالب ہیں۔ لہٰذا اگر انہیں کیا جائے کہ، ‘چلو یہ کام دوبارہ کرتے ہیں‘ تو اس طرح انہیں زیادہ شرمندگی اٹھائے بغیر مختلف انداز میں اپنا رویہ روا رکھنے کا موقع دستیاب ہوسکتا ہے۔

‘میں نے آپ سے کیا کہا تھا؟‘

اس جملے کی ادائیگی نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اگر آپ نے اس جملے کو شیریں لہجے میں نہ کہا تو بچے کو یہ ڈانٹ لگ سکتا ہے۔ جبکہ اگر آپ کے جذبات بھڑک اٹھے تو بچے کے بھی جذبات جاگ جائیں گے۔ مگر شائستگی کے ساتھ بچے سے پوچھنا کہ وہ بتائے کہ آپ نے کسی کام کو کرنے کا احسن طریقہ کیا بتایا تھا تو یہ ایک بہتر طریقہ ہے اسے یاد دہانی کروانے کا کہ انہیں اس کام کو کس انداز میں کرنا ہے۔

’میرے لیے بحث نہیں تم عزیز ہو‘

یہ جملہ بچے کو احساس دلانے میں مدد دے سکتا ہے کہ دراصل آپ بحث نہیں کرنا چاہتے بلکہ آپ اس کی بھلائی اور بہتری چاہتے ہیں۔ اس طرح کے جملوں کے استعمال سے بچے خود بھی بحث کو ترک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: بچوں کو ٹیکنالوجی سے دور رکھنے کے خواہشمند والدین خود پہل کریں

‘جب تم منہ سے یہ آوازیں نکالتے ہو تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا‘

یہ جملہ ‘یوں زور سے روتے ہوئے بولنا بند کرو!‘ کا ایک بہترین متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔ جب آپ کا بچہ نارمل انداز میں بولنا شروع کرے تو اس کی تعریف کریں اور پھر سمجھائیں کہ زور سے روتے ہوئے بولنا کیوں اچھی بات نہیں۔

’جب مہمان آئے تو ان سے کیسے ملتے ہیں؟’

بچوں کو آداب کی یاد دہانی کروانا بھی میدانِ جنگ میں اترنے سے کم نہیں۔ لیکن ہر وقت کی نُکتہ چِینی یا ملامت سے بچے کا رویہ جارحانہ ہوسکتا ہے، اس لیے ایک پُرسکون سوال کے ساتھ بچے کو خود ہی اس سے متعلق اقدار یاد کرنے کی ترغیب دیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں