انڈونیشیا پولیس نے سوشل میڈیا انسٹاگرام کے ذریعے نوزائیدہ بچوں کی فروخت میں ملوث 4 افراد کو گرفتار کرلیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' میں شائع رپورٹ کے مطابق مقامی پولیس کے مطابق انسٹا گرام پر ‘فیملی فلاحی ایجنسی’ کے نام سے منسوب ایک اکاؤنٹ کے ذریعے حاملہ خاتون، الٹراساؤنڈ اسکینز اور بچوں کی تصاویر ارسال کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: بچوں کی فروخت کا اسکینڈل، حکومت کا فلاحی اداروں سے تحقیقات کا حکم

پولیس نے بتایا کہ تصاویر کے ساتھ خریدار کو موبائل نمبر بھی فراہم کیا گیا تاکہ واٹس اپ پر رابطہ ہو سکے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک بچہ پہلے بھی فروخت کیا جا چکا ہے تاہم اس کی تلاش جاری ہے۔

تفتیشی افسر سرہابایا نے بتایا کہ ‘خریدار واٹس اپ کے ذریعے تمام معاملات طے کرتے تھے‘۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ اکاؤنٹ کو فیملی سے متعلق مسائل کے حل کے لیے ‘کنسٹلنیشن سروس’ کے طور پر بنایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: گردوں کی خرید و فروخت میں ملوث بین الاقوامی گروہ پکڑا گیا

اس اکاؤنٹ پر 7 سو سے زائد فولور تھے اور اس پر شیئر کی گئی بچوں کی تصاویر میں چہرے نمایاں نہیں تھے اور بچوں کا مذہب، علاقہ اور عمر کی تفصیلات موجود تھیں۔

پولیس کے مطابق انسٹاگرام میں ایک خاتون نے خود کو 7 ماہ کی حاملہ ظاہر کیا اور کہا کہ ان کے اہل خانہ بچے کی خواہش نہیں کرتے۔

اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ ایک اور پوسٹ میں حاملہ خواتین نے اپنی تصاویر سمیت اپنے علاقے کا تذکرہ کیا اور کہا کہ جس کسی کو بچہ گود لینا ہے وہ مذکورہ نمبر پر رابطہ کرے۔

پولیس کے مطابق پوسٹ میں خریدنے اور فروخت کرنے والے شخص کی تفصیلات موجود تھی۔

یہ بھی پڑھیں: انڈیا: فیس بک پر نومولود بچے کی فروخت

پولیس نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ بچوں کی خرید و فروخت کے الزام میں 4 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

ان کے مطابق ایک 22 سالہ خاتون نے اپنے 11 ماہ کے بچے کو فروخت کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے بتایا کہ خریدار نے 1 لاکھ 29 ہزار روپے ادا کرنے تھے جس میں سے بروکر اور انسٹاگرام اکاؤنٹ کے مالک ایلٹونو پینٹانٹ کو ملنے تھے۔

پولیس نے بتایا کہ زیر حراست افراد کو الزام ثابت پونے پر 15 برس کی جیل ہو سکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں