شاہ زیب حسن کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست، فریقین سے جواب طلب

کرکٹر شاہ زیب حسن پر 4 سال کی پابندی عائد ہے — فائل فوٹو
کرکٹر شاہ زیب حسن پر 4 سال کی پابندی عائد ہے — فائل فوٹو

لاہور ہائی کورٹ نے کرکٹر شاہ زیب حسن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل ) سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ سے 15 روز میں جواب طلب کرلیا۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کرکٹر شاہ زیب حسن کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت نے جلد سماعت کی متفرق درخواست پر سیکریٹری داخلہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 15 روز میں جواب طلب کرلیا۔

گزشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ نے شاہ زیب کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کی تھی۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: شاہزیب حسن کی ای سی ایل سے نام نکلوانے کی درخواست سماعت کیلئے منظور

کرکٹر شاہ زیب حسن کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست میں وفاقی حکومت، وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو فریق بنایا گیا تھا۔

شاہ زیب حسن نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ وہ ایک شہرت یافتہ کرکٹر ہیں اور ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے ، پاکستان کرکٹ بورڈ یا کسی اور تفتیشی محکمے کے پاس شکایت زیر التوا نہیں ہے۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ان کی اہلیہ اور بچے بیرون ملک مقیم ہیں اور انہوں نے کئی ماہ سے ان سے ملاقات نہیں کی۔

شاہ زیب حسن نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا جائے تاکہ وہ اپنے اہلِ خانہ سے ملاقات کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: شاہ زیب حسن پر ایک سال کی پابندی اور دس لاکھ روپے جرمانہ عائد

خیال رہے کہ فروری 2017 میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے دوسرے ایڈیشن کے دوران اسپاٹ فکسنگ کا اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا۔

مذکورہ اسکینڈل میں شاہ زیب حسن سمیت شرجیل خان، خالد لطیف، ناصر جمشید اور محمد عرفان کے نام سامنے آئے تھے جو انکوائری میں تمام کھلاڑیوں پر جرم ثابت ہوئے جس کے بعد انہیں علیحدہ علیحدہ اوقات میں سزائیں دی گئیں۔

پی سی بی کے اینٹی کرپشن ٹریبیونل نے اوپننگ بیٹسمین شاہ زیب حسن پر فروری 2018 میں جرم ثابت ہونے پر ایک سال کی پابندی سمیت 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا تھا۔

تاہم اگست 2018 میں ان کی سزا میں مزید 3 سال کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 4 سال تک کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں