سانحہ ساہیوال: جے آئی ٹی نے تحقیقات کیلئے مزید 10 روز مانگ لیے

جے آئی ٹی نے ایک ماہ کی مہلت گزرنے کے دو روز بعد بھی تحقیقاتی رپورٹ جمع نہیں کرائی — فائل فوٹو / میاں رمضان
جے آئی ٹی نے ایک ماہ کی مہلت گزرنے کے دو روز بعد بھی تحقیقاتی رپورٹ جمع نہیں کرائی — فائل فوٹو / میاں رمضان

لاہور: سانحہ ساہیوال پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے تحقیقات کے لیے دی گئی مہلت مکمل ہونے کے باوجود حتمی رپورٹ جمع نہیں کرائی اور تحقیقات مکمل کرنے کے لیے مزید 10 روز مانگ لیے۔

پنجاب حکومت کے ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے ایک ماہ کی مہلت گزرنے کے دو روز بعد بھی تحقیقاتی رپورٹ جمع نہیں کرائی اور مزید 10 روز کی مہلت مانگی ہے۔

تاہم پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی کو مزید مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے آج ہی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

دوسری جانب پولیس ذرائع نے جے آئی ٹی کی تحقیقات کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ رپورٹ کے مطابق خلیل اور اس کے اہلخانہ بے گناہ جبکہ ذیشان کے دہشت گردوں سے رابطے تھے۔

ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹ ذیشان کے متعلق تھی جس کے دہشت گردوں سے رابطے تھے، جبکہ خلیل اور اس کے اہلخانہ کو آپریشن میں بچایا جا سکتا تھا۔

ذرائع نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے واقعے میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔

بعد ازاں ساہیوال واقعے میں جاں بحق ذیشان کے بھائی احتشام اور وکیل فرہاد علی شاہ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں جے آئی ٹی رپورٹ کو رد کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ احتشام نے اقرار کیا کہ اس کے بھائی کے مشکوک افراد سے رابطے تھے، حالانکہ ہم نے احتشام کا تحریری بیان جمع کروایا تھا جس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: ’والدین کو قتل کرنے سے قبل اہلکار نے کسی سے فون پر بات کی‘

وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے احتشام سے 5 منٹ کی ہی تفتیش کی گئی جس میں صرف تین سوال پوچھے گئے، ابھی جے آئی ٹی نے اپنی تفتیش شروع ہی نہیں کی تو وزیر قانون پنجاب نے اسے دہشت گرد قرار دے دیا تھا، آج پولیس اہلکاروں کو بچانے کے لیے اسے دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔

اس موقع پر ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ 'میرا جو بیان چلایا جا رہا ہے وہ جے آئی ٹی کا من گھڑت بیان ہے اور سی ٹی ڈی، اپنے اہلکاروں کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔'

انہوں نے مطالبہ کیا کہ 'بھرتی کے وقت میری جو تصدیق ہوئی تھی اس رپورٹ کو بھی جے آئی ٹی کی تحقیقات کا حصہ بنایا جائے اور جنہوں نے اس آپریشن کا حکم دیا انہیں بھی شامل تفتیش کیا جائے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ذیشان کا کسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، ذیشان سے جو لوگ ملنے آتے تھے ان کے ساتھ اس کے کاروباری مراسم تھے اور انہیں میں بھی جانتا ہوں۔'

ساہیوال واقعہ

واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست شامل تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن ا س کے باوجود اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کو تیار ہوں، وزیراعظم

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

یاد رہے کہ واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے مؤقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ’ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا‘۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور ان کی میت کی تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام نے کہا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں رکھی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

دوسری جانب سانحے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی نے 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن مکمل ہونے پر ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کردی تھی۔

رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق خلیل اور اس کے اہل خانہ بے گناہ تھے جبکہ ذیشان کے حوالے سے انہوں نے مزید تفتیش کیلئے مہلت طلب کی تھی۔

خیال رہے کہ صوبائی وزیر راجہ بشارت نے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے آپریشن کو 100 فیصد درست قرار دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں