خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے ثمرات نہیں ملے،ازسرنوجائزہ لیا جائے،رضاربانی

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2019
رضاربانی نے خارجہ پالیسی مرتب کرنے کے لیے کمیٹی بنانے کی تجویز دے دی—فائل/فوٹو:اے ایف پی
رضاربانی نے خارجہ پالیسی مرتب کرنے کے لیے کمیٹی بنانے کی تجویز دے دی—فائل/فوٹو:اے ایف پی

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور سابق چئیرمین سینیٹ رضا ربانی نے ایوان کی مشترکہ کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے ثمرات سامنے نہیں آرہے ہیں۔

سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے رضاربانی نے کہا کہ ملک کی حالیہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے ثمرات سامنے نہیں آ رہے، ابوظہبی میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اعلامیے میں پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کی بات نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ او آئی سی میں کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کے حوالے سے منظور ہونے والی قرارداد پاکستان کی جانب سے اسپانسرڈ تھی۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ واشنگٹن سمیت بین الاقوامی دارالحکومتوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے حوالے سے سرگرمیاں ہوئیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور بھارتی جارحیت کا شکار ہونے کے باوجود ہمیں ‘ڈو مور’ کہا گیا۔

مزید پڑھیں:کشیدگی کے خاتمے کیلئے یکطرفہ کوششیں مددگار ثابت نہیں ہوں گی، ماہرین

پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لینے اور شراکت داروں سے مشاورت کرکے تجاویز مرتب کرنے کے لیے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی بھی بحث کے بعد خارجہ پالیسی کے حوالے سے تجاویز مرتب کرے، سینیٹ کی پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی اور قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کی رپورٹس پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کی جائیں۔

رضاربانی نے کہا کہ ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز کو بھی مدعو کر کے اس حوالے سے ان کی رائے بھی طلب کی جائے۔

ایوان بالا میں مختلف بل پیش

سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹر قرۃ العین مری کی جانب سے ڈی کیئر سینیٹرز بل 2018 ایوان میں پیش کیا گیا جس کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت سے انکار

دوسرا بل اسلام آباد کمپلسری ویکسی نیشن اینڈ پروٹیکشن آف ہیلتھ ورکرز بل 2019 سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے پیش کیا جس کو چیئرمین سینیٹ نے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی سینیٹر خوش بخت شجاعت نے پوسٹ آفس بل 2019 اور پاکستان کوریئر لاجسٹکس ریگولیٹری اتھارٹی بل 2018 پیش کیا اور دونوں بل متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کردیا گیا۔

سینیٹ اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ عوام کی فلاح حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں اسی لیے گیس، بجلی سمیت دیگر اشیا بھی مزید مہنگی ہوگئی ہیں۔

جمیعت علمااسلام (ف) کے سینیٹرمولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ حکومت پانچ سال رہی تو ملک کی نصف آبادی ختم ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سات ماہ گزر گئے لیکن ایک نوجوان کو بھی نوکری نہیں ملی اورعمران خان کو نوبل انعام دینے کی بات کر رہے ہیں، اگر نوبل انعام ملنا تھا تو بھٹو کو ملتا جس نے 90 ہزار قیدی رہا کروائے تھے۔

وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تو عوام سے پوچھے بغیر بھارتی پائلٹ واپس کر دیا۔

مولانا عبدالغفور حیدری نے مطالبہ کیا کہ حکمت عملی بنائیں کہ ملک کو کیسے چلانا ہے۔

مزید پڑھیں:پاک-بھارت کشیدگی: مذاکرات کا راستہ کھلنا چاہیے، اماراتی ولی عہد

عبدالغفور حیدری نے حال ہی میں نجی ٹی وی پر وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا کے نشر ہونے والے متنازع بیان پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ حلف اٹھاتے وقت عمران خان کی بھی زبان پھسل گئی تھی، وزیر اس بات پر ایوان میں معذرت کریں، یہ گفتگو نا قابل معافی ہے۔

پی ٹی آئی اراکین نے مولانا عبدالغفور حیدری کے بیان پر احتجاج کیا اور وزیرمملکت علی محمد خان کہا کہ فیصل واڈا کی زبان پھسل گئی تھی جس پر انہوں نے بار بار معافی مانگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے وزیراعظم کو اگر نوبل امن ایوارڈ ملے تو یہ ملک کی عزت ہے، عمران خان نے امن کی کوشش کی اور ابھی نندن کو واپس کر کے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو ٹیکنیکل ناک آوٹ کیا ہے۔

علی محمد خان کا کہنا تھا کہ ہم امن چاہتے ہیں۔

پاکستانی شہری کے بھارت میں قتل پر احتجاج

اپوزیشن اراکین نے سینیٹ اجلاس میں بھارتی جیل میں پاکستانی شہری شاکر اللہ کے قتل کا معاملہ اٹھایا اوراس معاملے پر بھارت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا اور متعلقہ وزیر کی عدم حاضری پر احتجاج کیا۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ بھارت شاکر اللہ کی دوران قید ہلاکت پر باضابطہ طور پر معافی مانگے۔

مزید پڑھیں:سیالکوٹ: بھارت میں شہید ہونے والے شاکر اللہ کی نماز جنازہ ادا کردی گئی

پی پی پی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ متعلقہ ایوان میں ایک بھی وزیر موجود نہیں جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ قائد ایوان بتائیں کہ وزرا کہاں ہیں، وزرا ایوان کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔

وزرا کی عدم حاضری پر اپوزیشن نے سینیٹ سے واک آؤٹ کیا۔

بعد ازاں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے ایوان کو بتایا کہ دیکھ رہے ہیں کہ شاکر اللہ کے کیس پر کون سا بین الاقوامی کنونشن لاگو ہوتا ہے اور بہترین فورم کون سا ہو گا جہاں ہم شاکر اللہ کا کیس لے کر جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم شاکر اللہ کا کیس بین الاقوامی سطح پر اٹھائیں گے، شاکر اللہ کیس میں بھارتی حکومت ملوث ہے اس لیے بھارتی حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

شیریں مزاری نے کرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت کلبھوشن یادیو اور را کی مداخلت کا ڈوزئیر تیار کیوں نہیں کر سکی۔

تبصرے (0) بند ہیں