کراچی: ملیر جیل میں چوری کے ملزم کی پُراسرار موت

اپ ڈیٹ 24 جون 2019
صغیر تنولی کو کچھ روز قبل سعید آباد پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
صغیر تنولی کو کچھ روز قبل سعید آباد پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: ڈسٹرکٹ جیل ملیر کے حکام کا کہنا ہے کہ زیر سماعت مقدمے کے قیدی کی پراسرار طور پر موت واقع ہوگئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مرنے والے قیدی کے رشتے داروں اور دیگر قیدیوں نے الزام لگایا کہ زیر سماعت مقدمے کا قیدی صغیر تنولی تشدد سے جاں بحق ہوا اور اس کے جسم پر مار پیٹ کے واضح نشانات موجود تھے۔

تاہم جیل حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ’زخمی‘ حالت میں جیل میں لایا گیا تھا اور وہ جیل ہسپتال میں ہی دوران علاج موت کا شکار ہوا۔

مزید پڑھیں: کراچی کی 2 جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدی

صغیر تنولی کو کچھ روز قبل سعید آباد پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ پولیس کا کہنا تھا کہ حراست میں لینے کے دوران اس کے کندھے پر زخم آئے تھے۔

ملزم کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 380 (گھر میں چوری، وغیرہ)، 457 (جرم کے ارتکاب کے لیے رات میں گھر میں گھسنا، وغیرہ، 109 (اکسانے) اور 34 (عام حالات) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

بعد ازاں ملزم کو 13 جون کو ملیر جیل منتقل کردیا گیا تھا اور 22 جون کی رات کو طبیعت خراب ہوئی اور وہ جیل کے میڈیکل وارڈ/ہسپتال میں انتقال کرگیا۔

ملزم کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ اس کے جسم پر تشدد کے نشانات موجود تھے۔

اس تمام معاملے پر ملزم کے بھائی محمد کبیر نے ڈان کو بتایا کہ صغیر حافظ قرآن تھا اور وہ گلشن مزدور سعید آباد میں اپنی رہائش گاہ کے قریب نیول کالونی میں ایک سپر اسٹور پر کام کرتا تھا۔

کبیر کا کہنا تھا کہ 11 جون کو پولیس نے مبینہ طور پر سپراسٹور کے مالک کے کہنے پر اسے رات 11 بجکر 45 منٹ پر حراست میں لیا، انہوں نے صغیر پر تشدد کیا جس سے اس کا ’ایک ہاتھ ٹوٹ گیا‘۔

بھائی نے مزید بتایا کہ جب صغیر کو جیل بھیجا گیا تو اس نے اپنے والد کو فون پر بتایا کہ حراست کے دوران اس پر تشدد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہفتے کی صبح انہیں بتایا گیا کہ صغیر ’دل کا دورہ‘ پڑنے سے موت کا شکار ہوگیا، تاہم جسم پر تشدد کے نشانات موجود تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ اسے ’غیر انسانی سلوک‘ کا نشانہ بنایا گیا۔

دوسری جانب شاہ لطیف ٹاؤن کے پولیس افسر عبدالقدوس کا کہنا تھا کہ جیل انتظامیہ نے تشدد کے الزامات کو مسترد کردیا اور کہا کہ صغیر کو جیل میں ٹوٹے کندھے کے ساتھ لایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت نے چیف جسٹس کے حکم پر معطل جیل سپرنٹنڈنٹ کو بحال کردیا

انہوں نے بتایا کہ 21 جون کو انہوں نے تکلیف کی شکایت کی اور اسے ڈرپ دی گئی اور جب ہفتے کی صبح نماز کے لیے کسی نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو وہ مردہ پایا گیا، جس کے بعد جیل کے ڈاکٹر کو بلایا گیا اور انہوں نے موت کی تصدیق کی۔

افسر کا کہنا تھا کہ ایک قیدی نے ہفتے کو جیل کا دورہ کرنے والے جوڈیشل مجسٹریٹ کو دیے گئے بیان میں دعویٰ کیا کہ صغیر پر ’تشدد‘ کیا گیا، ساتھ ہی پولیس نے 5 دیگر قیدیوں کے بیانات بھی لے لیے۔

ادھر ایس ایس پی انویسٹی گیشن غربی عابد علی بلوچ نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے تشدد کے دعووں کی حقیقت جاننے کے لیے تحقیقات شروع کردی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں