وزیر قانون کے خلاف پاکستان بار کونسل کا شوکاز نوٹس معطل

اپ ڈیٹ 28 جون 2019
ڈاکٹر فروغ نسیم نے اٹارنی جنرل کو درخواست دی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈاکٹر فروغ نسیم نے اٹارنی جنرل کو درخواست دی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: اٹارنی جنرل انور منصور خان نے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کے خلاف جاری شوکاز نوٹس کو معطل کرتے ہوئے وکلا برادری کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے اجلاس میں غور کرنے سے روک دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل نے پاکستان لیگل پریکٹشنرز اینڈ بار کونسلز رولز 1976 کی شق 84 (اے)، پاکستان لیگل پریکٹشنر اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973 کی شق 12(8) کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کیا، جس سے وہ پی بی سی کے چیئرمین کے طور پر کام کرتے ہیں۔

انور منصور خان کی جانب سے یہ فیصلہ وزیر قانون کی پیش کردہ 26 جون کی درخواست پر کیا گیا جس میں انہوں نے پاکستان بار کونسل کی 12 جون کی اس بڑی قرار داد کو مسترد کریا تھا جو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں مبینہ کردار پر ڈاکٹر فروغ نسیم کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: ’ججز کے خلاف دائر ریفرنس میں قانونی تقاضے نظر انداز کردیے گئے‘

5 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں اٹارنی جنرل نے ڈاکٹر فروغ نسیم کی درخواست پر مزید سماعت 3 جولائی تک ملتوی کردی لیکن پاکستان بار کونسل کے سیکریٹری محمد ارشد اور دیگر اراکین کو نوٹسز جاری کردیے۔

انور منصور خان کا کہنا تھا کہ وزیرقانون نے اپنی درخواست میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ پاکستان بار کونسل 30 جون کو اپنے آئندہ اجلاس میں ان کے خلاف شوکاز نوٹس سے متعلق قرارداد پاس کرسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ججز کے خلاف ریفرنس: دوسری سماعت 2 جولائی کو ہوگی

اپنے حکم میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی وزیر کی 26 جون کی درخواست اور سپریم کورٹ کا 15 مئی کے فیصلے نے معاملے کا موثر طریقے سے فیصلہ کیا، لہٰذا پی بی سی کی قرارداد اور شوکاز نوٹس بدنیتی اور بغیر کسی دائرہ کار کے تھا۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے معاملے میں وزیر قانون کے خلاف لگائے گئے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے انور منصور خان کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم نے آئین اور قانون کے مطابق عمل کیا۔

اپنے اختیارات کی وضاحت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1973 ایکڈ کی شق 12(8) کے تحت چیئرمین اور وائس چیئرمین دونوں مطلوبہ اختیارات اور فنکشنز رکھتے ہیں جبکہ 1976 رولز کے رول 84(اے) کہتا ہے کہ بار کونسل کا چیئرمین ایکٹ اور رولز کی دفعات کے ساتھ اس کی تعمیل یقینی بنانے کا ذمہ دار ہوگا۔

دوسری جانب اٹارنی جنرل کے اس فیصلے پر پی بی سی کے وائس چیئرمین کا فوری ردعمل سامنے آیا اور سید امجد شاہ کا کہنا تھا کہ ان کے دفتر نے اٹارنی جنرل کو کونسل کی اپیلیٹ اتھارٹی نہیں بنایا، لہٰذا انور منصور خان کے پاس پی بی سی کا حکم معطل کرنے کا اختیار نہیں۔

ایک بیان میں پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین نے انور منصور خان کے فیصلے کو ’اختیارات کے غلط استعمال کی واضح مثال ‘ کے طور پر بیان کیا کیونکہ انہوں نے اس ادارے کے امور میں مداخلت کی جس کے وہ سابق چیئرمین رہ چکے ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں