اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ ’مبہم‘ قرار دیدی

اپ ڈیٹ 29 جون 2019
اسی بینچ نے آصف علی زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست بھی خارج کردی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
اسی بینچ نے آصف علی زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست بھی خارج کردی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے ڈویژن بینچ نے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ کو مبہم قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور ساتھ ہی طبی بنیادوں پر دائر درخواست ضمانت بھی خارج کردی۔

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ کے تفصیلی فیصلے میں کوٹ لکھپت جیل انتظامیہ کی جانب سے سابق وزیراعظم کو فراہم کی جانے والی طبی سہولیات پر اظہارِ اطمینان کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی بینچ نے آصف علی زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست بھی خارج کردی تھی جس کے بعد سابق صدر نے پارک لین، آسائشات اور بکتربند گاڑیوں کے کیس میں اپنی تینوں درخواستیں واپس لے لی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ضمانت میں توسیع نہ ہوئی تو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، نواز شریف

واضح رہے کہ نواز شریف نے بگڑتی ہوئی صحت کے باعث سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کی استدعا کی تھی۔

علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے میاں نواز شریف کے بیرونِ ملک علاج کی تجویز دینے والے غیر ملکی معالج کی رائے پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ’تجویز پرائیویٹ ڈاکٹر کی ہے جس کی درستی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں، اس کے ساتھ شریف میڈیکل سٹی کی حتمی رپورٹ اور غیر ملکی ڈاکٹر کی رائے بھی مبہم ہے‘۔

عدالت نے کہا کہ حمتی رپورٹ میں بیماری اور اس کی نوعیت کے حوالے سے تفصیلات لکھی ہیں لیکن اس میں ممکنہ علاج کی تجویز نہیں دی گئی تاہم اس کے ساتھ اس بات کا تذکرہ بھی موجود نہیں کہ بیماری کا علاج صرف بیرونِ ملک ہی ممکن ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ:نواز شریف کی ضمانت میں توسیع،بیرون ملک علاج کی درخواست مسترد

عدالتی حکم میں میڈیکل رپورٹ کے صفحہ نمبر 5 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس میں دل کی تکلیف کے حوالے سے ادویات اور صحت کی جدید سہولیات تجویز کی گئیں ہیں لیکن ایسا نہیں کہا گیا کہ یہ سہولیات پاکستان میں میسر نہیں۔

بینچ نے نشاندہی کی کہ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تشکیل شدہ بینچ نے ان رپورٹس اور دستاویزت کا جائزہ لیا اور گزشتہ برس اگست میں یہ فیصلہ کیا کہ ضمانت کے لیے دیے گئے پہلے فیصلے پر نظرِ ثانی نہیں کی جائے گی۔

تفصیلی فیصلے میں یہ بھی وضاحت کی گئی کہ زندگی کا حق بلاشبہ بنیادی حق ہے اور اگر کسی قیدی کو تسلی بخش علاج معالجہ فراہم کیا جارہا ہو تو اس بنیاد پر ان کی ضمانت پر رہائی نہیں ہوسکتی‘۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو ریلیف دینے کیلئے کسی بھی ملک نے بات نہیں کی، عمران خان

اس کے ساتھ عدالت نے کوٹ لکھپت جیل میں فراہم کی جانے والی طبی سہولیات پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’درخواست گزار کو ہر ممکن بہتر علاج معالجہ فراہم کیا جارہا ہے اور ضرورت پڑنے پر جیل سپرنٹنڈنٹ قیدی کو میڈیکل بورڈ میں ریفرر کرسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں