بھارت نے غلطی کی تو خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 07 اگست 2019
وزیر اعظم عمران خان قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیا — فوٹو:ریڈیو پاکستان
وزیر اعظم عمران خان قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیا — فوٹو:ریڈیو پاکستان

اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت ہم پر حملہ کرے گا تو ہم جواب دیں گے اور خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوبارہ آغاز پر وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق قرارداد پیش کی۔

قبل ازیں پیش کی گئی قرارداد میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی دفعہ 370 ختم کرنے کا ذکر نہ ہونے پر اپوزیشن اراکین نے احتجاج کیا تھا جس کے باعث اجلاس 20 منٹ کے لیے ملتوی کیا گیا تھا۔

تاہم مشترکہ اجلاس 2 گھنٹے سے زائد تاخیر کے بعد شروع ہوا جس میں اعظم سواتی نے بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کا معاملہ شامل کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر سے متعلق قرارداد پیش کی۔

وزیراعظم عمران خان کے پالیسی بیان، قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کے خطاب کے بعد اسپیکر اسمبلی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردیا۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں اس اجلاس کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے، اس اجلاس کو صرف پاکستانی قوم نہیں دیکھ رہی بلکہ کشمیری اور پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن اسی طرح شور کرنا چاہتی ہے تو میں بیٹھ جاتا ہوں جس پر شہباز شریف نے کہا کہ میں اپنے دوستوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ بیان سنیں پھر ہم اس کا مدلل جواب دیں گے۔

اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اس سیشن کی اہمیت صرف کشمیریوں اور پاکستان کے لیے نہیں ہے بلکہ بھارت نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے اثرات پوری دنیا پر ہوں گے، لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ تحمل سے سنیں، آج یہاں سے بہت اہم پیغام جائے گا۔

مزید پڑھیں: ’بی جے پی سرکار نے انتخابات جیتنے کے زعم میں خطرناک کھیل کھیلا ہے‘

انہوں نے کہا کہ میری حکومت کی اولین ترجیح تھی کہ پاکستان میں غربت کو ختم کیا جائے اس کے لیے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے جائیں کیونکہ عدم استحکام کے اثرات شرح نمو پر مرتب ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے تمام پڑوسیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ خطے میں سرمایہ کاری آئے گی تو غربت کا خاتمہ ہوگا، میں نے بھارت سے رابطہ کیا کہ آپ ایک قدم ہماری طرف بڑھائیں گے ہم دو بڑھائیں گے جبکہ افغانستان، چین اور دیگر ممالک کا دورہ کیا اور حال ہی میں امریکا کا دورہ کیا۔

عمران خان نے کہا کہ امریکا کا دورہ اسی کوشش کی کڑی تھی کہ ماضی میں جو بھی مسائل تھے وہ ختم ہوں تاکہ پاکستان کو استحکام ملے، ترقی ملے اور غربت کا خاتمہ ہوسکے۔

پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نریندر مودی نے پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کے خدشات کا اظہار کیا تھا، ہم نے انہیں سمجھایا تھا کہ 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول ہوا تو تمام سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان (نیپ) منظور کیا تھا اور یہ عزم کیا تھا کہ پاکستان کی زمین کو کسی دہشت گرد گروہ کی جانب سے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارت سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن وہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے جبکہ ہماری پیشکش کے بعد پلوامہ واقعہ ہوا، تاہم پلوامہ میں نریندر مودی کو سمجھایا کہ اس میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، لیکن اس وقت بھارت میں انتخابات تھے اور انہیں کشمیر میں ہونے والے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانی تھی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کا مقصد جنگی جنون اور پاکستان مخالف جذبات پیدا کر کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا تھا، بھارت نے ڈوزیئر بعد میں بھیجا طیارے پہلے بھیجے جس کا پاک فضائیہ نے بھرپور جواب دیا، ہم نے ان کا پائلٹ پکڑا تو یہ بتانے کے لیے رہا کیا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہم بھارتی انتخابات تک خاموش ہوگئے، بشکیک میں منعقد کانفرنس میں بھارت کا رویہ دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ وہ ہماری امن کی کوششوں کو غلط اور اسے ہماری کمزوری سمجھ رہے ہیں، اس لیے ہم نے مزید بات چیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے ہر حد تک جائیں گے، آرمی چیف

وزیراعظم نے کہا کہ دو طرفہ طور پر یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ رہا اور برصغیر میں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ایک ارب افراد متاثر ہورہے ہیں اس لیے امریکی صدر سے ملاقات میں درخواست کی کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کریں لیکن اس پر بھارت کا رد عمل آپ کے سامنے تھا۔

عمران خان نے کہا کہ بشکیک میں اندازہ ہوگیا تھا کہ بھارت کو ہم سے بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں اور اس حوالے سے مجھے جو شبہ تھا وہ کل سامنے آگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے یہ فیصلہ اچانک نہیں کیا بلکہ یہ ان کے انتخابات کا منشور تھا اور یہ ان کا بنیادی نظریہ ہے جو آر ایس ایس کے نظریے پر مبنی ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیں گے اور بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس میں مسلمانوں کے خلاف تعصب تھا اور جب انگریز جارہے تھے تو ان کا ارادہ تھا کہ مسلمانوں کو اس ملک میں دبا کر رکھیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو ہندو ۔ مسلم اتحاد کے سفیر سمجھے جاتے تھے، کیا وجہ تھی کہ انہوں نے الگ ملک کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھارت میں جو لوگ دو قومی نظریے کو نہیں مانتے تھے آج وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ ٹھیک تھا، وہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں تمام اقلیتوں مسلمانوں اور مسیحی برادری کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہورہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ قائد اعظم نے 11 اگست کی معروف تقریر میں کہا تھا کہ ’سب اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں' اور ہم غلطی سے کہتے ہیں کہ قائد اعظم سیکولر تھے، دراصل یہ دو نظریے تھے، ایک نظریہ نسل پرست تھا کہ مسلمانوں کو برابری کا درجہ نہیں دیں جبکہ دوسرا نظریہ قائداعظم کا تھا کہ یہاں سب برابر ہیں اور یہ نظریہ ریاست مدینہ سے لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: آرٹیکل 370، 35 اے کا خاتمہ بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے، وزیر خارجہ

وزیر اعظم نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری خطبے میں کہا تھا کہ ہم سب آدم کی اولاد ہیں، انہوں نے نسل پرستی کو مسترد کیا تھا اور پاکستان جس نظریے پر بنا اس میں تعصب نہیں تھا۔

عمران خان نے کہا کہ قائد اعظم نے 11 اگست کی تقریر اور تحریک پاکستان کی تقریروں میں کہا تھا کہ ہندوستان میں انہیں بنیادی حقوق نہیں ملیں گے اس وقت تو وہ مسلم کارڈ نہیں کھیل رہے تھے، جس نظریے سے ان کا مقابلہ تھا وہ اسے سمجھ گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جو بھارت میں ہورہا ہے ہم اس کے مخالف ہیں، ہمارے ملک میں جب اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی ہو تو ہم اپنے دین اور نظریے کے خلاف جاتے ہیں، لیکن موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت جب گوشت کھانے والوں کو لٹکا دیتی ہے اور لوگ انہیں مار دیتے ہیں، جو انہوں نے کل کشمیر میں کیا، پچھلے 5 برس جو تشدد کیا اور جو مسیحی برادری کے ساتھ کیا یہ بھارت کا نظریہ ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارا مقابلہ نسل پرست نظریے سے ہیں، کشمیر میں انہوں نے اپنے نظریے کے مطابق کیا لیکن وہ اپنے ملک کے آئین، اپنی سپریم کورٹ، مقبوضہ کشمیر کے فیصلے کے خلاف گئے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور شملا معاہدے کے خلاف گئے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرکے مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے اور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کے خلاف ہے، اسے جنگی جرم سمجھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے اپنے نظریے کے لیے اپنے آئین، قوانین اور تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا قانون منظور کردیا تو وہ کشمیری جو 5 سال سے جاری تشدد کے باعث جدوجہد کررہے ہیں کیا وہ قانون کی وجہ سے فیصلہ کریں گے کہ ہماری جدو جہد ختم ہوگئی، ہم غلام بننے کے لیے تیار ہیں یہ تحریک تو مزید شدت پکڑے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر کی یکطرفہ تقسیم سے قومی یکجہتی میں اضافہ نہیں ہوگا،راہول گاندھی

عمران خان نے کہا کہ ہم سب کو سمجھنا ہے کہ اب یہ مسئلہ مزید سنجیدہ صورتحال اختیار کر گیا ہے، بھارت نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو مزید دبانا ہے، وہ انہیں اپنے برابر نہیں سمجھتے کیونکہ اگر وہ کشمیریوں کو اپنے برابر سمجھتے تو وہ جمہوری طور پر کوئی کوشش کرتے۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کو طاقت کے زور پر کچلنےکی کوشش کرے گی اور جب وہ ایسا کرے گی تو ردعمل آئے گا تو میں آج پیش گوئی کرتا ہوں کہ پھر پلوامہ کی طرز کا واقعہ ہوگا اور بھارت وہی کہے گا کہ پاکستان سے دہشت گرد آئے جبکہ اس میں ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ بھارت اب کشمیریوں کی نسل کشی کرے گا، لوگوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کرنا ہے تاکہ وہاں دوسری اکثریت آجائے اور کشمیری غلامی تلے دب جائیں۔

عمران خان نے کہا کہ بھارت جب یہ سب کچھ کرے گا اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرائے گا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پلوامہ کے بعد جب بھارت نے اپنے طیارے بھیجے اور بالاکوٹ پر بمباری کی، رات کے ساڑھے 3 بجے میں نے آرمی چیف، ایئر چیف نے بات چیت کی تو ہم یہ سوچ رہے تھے کہ کوئی جانی نقصان ہوا، ہمیں جب علم ہوا کہ کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تو ابھی ہم کچھ نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس وقت ہمارا کوئی جانی نقصان ہوتا تو ہماری فضائیہ نے بھی بھارتی جانب ہدف طے کیا ہوا تھا جہاں جانی نقصان ہوتا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی عوام کا کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی

عمران خان نے کہا کہ پلوامہ واقعے کے بعد سے میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ دو جوہری ممالک ایسے خطرات مول نہیں لے سکتے، ہمیں اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے چاہیئیں، انہوں نے مزید کہا کہ جب ایسا کچھ ہوگا تو صورتحال ہمارے قابو سے باہر ہوجائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں ایک تکبر نظر آتا ہے جو ہر نسل پرست میں دکھائی دیتا ہے، بھارتی آپریشن کی وجہ سے پلوامہ واقعے کی طرز کا ردعمل آئے گا جس پر انہوں نے آزاد کشمیر میں کچھ کیا تو ہم اس کا بھرپور جواب دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرے اور ہم اس کا جواب نہ دیں جس کے بعد کشیدگی مزید آگے بڑھ سکتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ اس کے بعد روایتی جنگ ہوسکتی ہے، جنگ ہوگئی تو دو نتیجے ہوسکتے ہیں جنگ ہمارے خلاف یا ہمارے لیے بھی جاسکتی، اگر جنگ ہمارے خلاف جاتی ہے تو میں نے اسی ایوان میں کہا تھا کہ ہمارے پاس دو راستے ہوں گے، ہم بہادر شاہ ظفر بنیں یا ٹیپو سلطان۔

وزیراعظم نے کہا کہ بہادر شاہ ظفر کا راستہ یہ ہوگا کہ ہاتھ کھڑے کرکے ہار مان لیں گے یا ٹیپو سلطان کی طرح خون کے آخری قطرے تک مقابلہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی قوم کو جانتا ہوں، مسلمان موت سے نہیں ڈرتا وہ صرف انسانیت کا سوچتا ہے ہم امن کے لیے صرف اپنے دین کی وجہ سے سوچتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ اگر ہم خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے تو کون سی جنگ ہوگی وہ جنگ ہوگی جس میں کوئی نہیں جیت سکتا، سب ہار جائیں گے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں نیوکلیر بلیک میل نہیں کررہا بلکہ کامن سینس کی بات کررہا ہوں کہ بہتری کی امید رکھیں اور بدترین کے لیے تیار رہیں کیا دنیا بدترین کےلیے تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں خوف اور بے یقینی کی فضا برقرار

وزیراعظم نے کہا کہ اس لیے دنیا سے اپیل کرتا ہوں کہ ایک ایسا ملک جو کھلم کھلا تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ جب وہ پہلے کشمیریوں پرظلم کررہا تھا تو دنیا نے کچھ نہیں کیا اور اگر اب دنیا نے کچھ نہیں کیا تو یہ بات اب وہاں جائے گی جہاں سب کو نقصان ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ اس لیے کارروائی کرنے کا صحیح وقت یہی ہے، بی جے پی جو کررہی ہے وہ جرمنی میں نازی جماعت کرتی تھی، انہوں نے اپوزیشن کو دیوار سے لگادیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے ہر وہ چیز کی ہے جو بھارت کی جمہوریت کے علاوہ مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو اور سیکولر نظریے کے خلاف ہے، یہ وہ نظریہ ہے جس نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی حکومت کے نظریے پر دنیا آج اقدام نہیں اٹھائے گی تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے کیونکہ یہ معاملہ اس سطح پر جارہا ہے جو پوری دنیا کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ واضح کرتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی سمیت ہر فورم پر لڑیں گے، ہم غور کررہے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی عدالت انصاف میں کس طرح اس معاملے کو اٹھایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مختلف ممالک کے سربراہان سے اس سلسلے میں بات کریں گے، ہر فورم پر بتائیں گے کہ آج دنیا جن اقدار پر کھڑی ہے اور نازی جماعت کے مظالم کی مذمت کرتی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ہم آج پھر اسی جانب جارہے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے اس لیے بدقسمتی سے دنیا رد عمل نہیں دے رہی لیکن آخر میں پوری دنیا کو اس کا نقصان ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ کشمیر کی تحریک ایک قانون کے ذریعے نہیں کچلی جاسکتی، کشمیریوں کے ساتھ صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کی آواز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مغرب میں جاکر بتاؤں گا کہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے مغربی اقدار کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

ہم نہ فلسطین ہیں، نہ اس خطے میں اسرائیل بننے دیں گے، شہباز شریف

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ مودی سرکار نے پاکستان کی عزت اور غیرت کو للکارا ہے ہم نہ فلسطین ہیں اور نہ اس خطے میں اسرائیل بننے دیں گے۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ کشمیر کے وجود کے ساتھ پاکستان کا براہ راست تعلق ہے، پاکستان کشمیریوں کا ہے اور کشمیری پاکستان کے ہیں۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ خصوصی حیثیت ختم کرکے مودی سرکاری نے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ہے اور کشمیر کی وادی میں نہتے مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں بدترین سفاکی ہوئی ہے، یہ وہ عظیم سانحہ ہے جس کا براہ راست پاکستان کی زندگی سے تعلق ہے۔

مزید پڑھیں: 'امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش ٹرمپ کارڈ تھا یا ٹریپ'

شہباز شریف نے کہا کہ وزیراعظم نے تاریخی باتیں کیں، قائداعظم کے فرمودات، ریاست مدینہ کے حوالے سے باتیں کیں لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بتائے کہ اس واقعے کو 24 گھنٹے ہوچکے ہیں اور 48 گھنٹے ہونے والے ہیں ان کی کیا حکمت عملی ہے۔

اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ حکومت مودی کے اس حملے کا جواب دینے کے لیے کیا منصوبہ بندی کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پوری قوم وزیراعظم سے سننا چاہتی ہے کہ ہم کیا منصوبہ بندی کررہے ہیں وہاں بدترین سفاکی ہے، انٹرنیٹ بند ہوگیا ہے، مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا، وہاں نسل کشی کا خطرہ ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے بڑے حوصلے اور تحمل سے ان کی بات سنی، مودی سرکار نے صرف کشمیر کے اندر ان کے حقوق نہیں چھینے مزید غاصبانہ حملہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے پاکستان کی عزت اور غیرت کو للکارا ہے اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہے اور مہذب دنیا کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ آج بحیثیت قوم کشمیریوں کے ساتھ روایتی باتوں اور متفقہ قرارداد سے بات نہیں بنے گی پاکستان کو آج ٹھوس فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ دشمن کو پتہ چل سکے کہ ہم خاموش نہیں رہیں گے۔

شہباز شریف نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے امریکا سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیں وقار کے ساتھ ہمسائیوں کے ساتھ امن قائم کرنا ہے، ہم نے گزشتہ 70 سالوں میں 3، 4 جنگیں لڑیں اس کا کیا نتیجہ نکلا یہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن یہ بات سامنے آئی کہ دونوں اطراف غربت بڑھی، تعلیم اور علاج کے وسائل جنگوں میں جھونکے گئے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا ہم امن وقار کے ساتھ چاہتے ہیں بے توقیری کے ساتھ نہیں، یہ بہت اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کی جس میں انہوں نے کہا کہ میں ثالثی کے لیے تیار ہوں اور مودی نے بھی اس کا اشارہ دیا تھا مگر وزیراعظم وطن واپس آئے اور چند دنوں میں سارا معاملہ پوری دنیا کے سامنے آگیا کہ نریندر مودی نے نہ صرف ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کی نفی کی بلکہ اس نے کشمیر میں جو کرنا تھا کل اور پرسوں کردکھایا۔

شہباز شریف نے کہا کہ کشمیر میں دن رات خون بہایا جائے، ان کے گھروں کو بموں سے اڑایا جائے، کلسٹر بموں کے استعمال سے ایل او سی پر لوگوں کو شہید کیا جائے اور ہم کہیں کہ ہم افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے سب کچھ کر گزریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے لیے ہم شاندار اسٹیج سجائیں اور کشمیر میں دن رات خون بہایا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم کابل میں امن چاہتے ہیں اور مودی اس کا مخالف ہے، ہم امن کے لیے سب کچھ جھونک دیں اور ہماری اس کوشش کا اس طرح بدلا دیا جائے، شہباز شریف نے مزید کہا کہ بتایا جائے ثالثی کی پیشکش امریکی صدر کا ٹرمپ کارڈ تھا یا ٹریپ کارڈ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی ہائی کمشنر کی دفتر خارجہ طلبی، مقبوضہ کشمیر پر غیرقانونی اقدام پر احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دو راستے ہیں کہ ہم جھک جائیں یا ڈٹ جائیں، جھکنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ہمیں ڈٹنا ہوگا اور کشمیر کے لیے ہر قربانی دینی ہوگی۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، مودی نے شہ رگ پر ہاتھ ڈالا ہے اس سے پہلے وہ شہ رگ کو کاٹے ہم اس کے ہاتھ کاٹ دیں لیکن باتوں سے نہیں، یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں انتظار تھا کہ وزیراعظم قوم کو، ایوان کو اعتماد لیں گے لیکن وہ تاریخ اور ریاست مدینہ کی بات کرتے رہے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ وزیراعظم قوم کو بتائیں کہ ہم ایک ہیں اور بھرپور مقابلہ کریں گے، آج سے پہلے اس کی اتنی ضرورت نہیں تھی۔

شہباز شریف نے کہا کہ دنیا کو بتائیں کہ قوم کو کشمیر کی صورت میں ایک اور فلسطین دینے کی اجازت نہیں دیں گے اور مودی کو اسرائیل بننے نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہ فلسطین ہیں اور نہ اس خطے میں اسرائیل بننے دیں گے۔

کشمیریوں کو ان کے اپنے ہی گھر میں اقلیت میں بدل دیا، بلاول بھٹو

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے قلم کی ایک جنبش پر کشمیریوں کو ان کے اپنے ہی گھر میں اقلیت میں بدل دیا۔

قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر میں کلسٹر بموں سے حملہ، ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی، انٹرنیٹ اور مواصلاحات کے نظام کو معطل کرنا بھارت کے نظریہ سیکولر کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کے اتحادی سابق وزرا اعلیٰ سمیت دیگر رہنماؤں کو بھی نظر بند کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کشمیر سے متعلق بھارتی فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے اور بھارتی عوام کو بھی نہیں کرنا چاہے۔

علاوہ ازیں بلاول بھٹو نے اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج بھی آپ اپنا ایوان مکمل کرنے میں ناکام رہے اور انتہائی اہم مسئلے کے باوجود شاہد خاقان عباسی اور رانا ثناء اللہ سمیت دیگر اراکین قومی اسمبلی موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی عدم موجودگی پر بھی حکومت پر تنقید کی۔

مزید پڑھیں: چین نے بھارتی اقدام ملکی خودمختاری کے منافی قرار دے دیا

بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت میں ’گجرات کا قصائی‘ اعلیٰ عہدے پر فائر ہوا اور پاکستان نے نریندر مودی کی انتہا پسندانہ سوچ کو سمجھنے میں کوتاہی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک کشمیری بھی نریندر مودی کے عمل کی حمایت نہیں کرتا۔

بلاول بھٹو نے بھارتی فیصلے کو کشمیر، اقوام متحدہ، عالمی قوانین، جمہوریت، قانون، کشمیری مسلمانوں اور بھارتی نظریہ سیکولر پر حملہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا ’آرٹیکل 370 دراصل جواہر لعل نہرو، موہن داس کرم چند گاندھی اور اٹل بہاری واجپائی پر بھی حملہ ہے اور گجرات میں مسلمانوں کے قصائی نے پورے خطے کو آگ کے دھانے پر لا کھڑ اکیا‘۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جس طرح ہم آزادی اور امن کے ساتھ رہتے ہیں، کشمیریوں کو بھی اسی طرح جینے کا پورا حق ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ’حکومت پوچھتی ہے کہ کیا کریں؟ لیکن افسوس کہ اب تک حکومت کی جانب سے پالیسی بیان سامنے نہیں آیا‘۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان نے ’گجرات کے قصائی‘ نریندر مودی کو وزیر اعظم بننے پر خوش آمدید کہا اور انہیں تسلیم کیا جو ہماری بڑی غلطی تھی کیونکہ مودی شدت پسند اور انتہا پسندہیں، ان کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی مذہبی انتہا پسند تنظیم (آر ایس ایس) کے حمایتی یافتہ نریندرمودی سے مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کی امید نہیں رکھنی چاہیے تھی، پاکستان کو نریندر مودی کے عزائم سمجھ لینا چاہیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’بی جے پی سرکار نے انتخابات جیتنے کے زعم میں خطرناک کھیل کھیلا ہے‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے ماضی میں بہت سے مواقع ضائع کیے اب جبکہ بہت کچھ ’داؤ‘ پر لگ گیا تو اب ہمیں دانشمندانہ ردعمل اختیار کرنا چاہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی دفعہ 370 ختم کرنے کے بعد بھارت باقاعدہ طور پر مقبوضہ کشمیر کا غاصب بن گیا۔

انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کو مسئلہ کشمیر موثر انداز میں اقوام متحدہ اٹھانا چاہیے۔

بلاول بھٹو نے زور دیا کہ او آئی سی میں وزرا خارجہ کی سطح کا خصوصی اجلاس بلا کر مذکورہ معاملہ اٹھانا چاہیے تاکہ ہم دنیا کو واضح پیغام دے سکیں کہ ہمارے جزوی اختلافات ایک طرف لیکن مسئلہ کشمیر پر پوری دنیا کے مسلمان ایک ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ’ٹوئٹ اور تقریر ناکافی تھی افسوس تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے پالیسی بیان نہیں دیا گیا‘۔

انہوں نے کہا عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور ظالم و ستم کے خلاف اپنا کردار ادا کرے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت شملہ معاہدہ 1971 کے مخالف جاکر دوطرفہ مذاکرات کے تمام دروازے بند کررہا ہے۔

انہوں نے کہا وزیراعظم اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال کریں اور ہر عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کریں۔

قرارداد میں آرٹیکل 370 کا ذکر نہ ہونے پر اپوزیشن کا احتجاج

خیال رہے کہ پارلیمان کا مشترکہ صدر مملکت عارف علوی نے طلب کیا تھا، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ہونے والے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر بھی شریک ہوئے جنہوں نے بازو پر سیاہ پٹی باندھ رکھی تھی۔

اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن سے کیا گیا، قومی ترانے کے بعد وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے قرارداد پیش کی جس میں بھارتی فورسز کی جانب سے شہری آبادی کو بلااشتعال فائرنگ اور شیلنگ سے نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافے کا ذکر شامل تھا۔

تاہم اس قرارداد میں بھارت کی جانب سے ختم کی گئی مقبوضہ جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کی دفعہ 370 کا ذکر نہ ہونے پر اپوزیشن اراکین نے احتجاج شروع کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیلئے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ قرارداد میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کا ذکر ہی نہیں اس کو شامل ہونا چاہیے۔

مذکورہ مطالبے کی وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے بھی تائید کی، جس کے بعد اسپیکر اسد قیصر کی ہدایت پر اعظم سواتی نے ترمیم شدہ قرارداد ایوان میں پڑھتے ہوئے اس میں آرٹیکل 370 کا ذکر شامل کیا۔

تاہم اپوزیشن نے احتجاج جاری رکھا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور کسی بھی حکومتی رکن کو بات کرنے نہیں دی، جس کے بعد اسپیکر نے 20 منٹ کے لیے ایوان کا مشترکہ اجلاس ملتوی کردیا۔

تاہم 20 منٹ کے لیے ملتوی کیا جانے والے اجلاس کئی گھنٹے بعد دوبارہ شروع ہوا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی منعقد ہوا تھا تاہم قرآن کی تلاوت اور قومی ترانہ کے بعد فوری طور پر یہ کہہ کر ملتوی کردیا گیا تھا کہ ‘حالیہ واقعات کی روشنی میں اسمبلی کا معمول کے مطابق اجلاس نامناسب ہے‘۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وہ پہلے اپوزیشن رہنما تھے جنہوں نے فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

’وزیراعظم مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر رابطے کررہے ہیں، فردوس اعوان

وقفے کے دوران وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دن ہمیں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ کشمیر کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، پاکستان اور کشمیر لازم و ملزوم ہیں، پاکستان کشمیر کے بغیر ادھورا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہونے والے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے کشمیریوں کی امیدیں وابستہ ہیں اور اس ایشو پر حکومت اپوزیشن نے مل کر بے گناہ کشمیریوں کی سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھنی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان بین الاقوامی سطح پر رابطے کررہے ہیں اور مختلف ممالک کے سربراہان سے بات چیت کررہے ہیں تا کہ متعلقہ عالمی فورمز پر کشمیر کا مقدمہ بہتر طریقے سے پیش کیا جائے جس کے بارے میں وہ آج پارلیمان کو اعتماد میں لیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی عوام کا کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی

انہوں نے بتایا کہ اعظم سواتی کی پیش کردہ قرارداد میں بھارت کو نشانہ بنایا گیا تھا لیکن اگر اپوزیشن کی خواہش ہے کہ قرارداد میں کشمیر کی حثیت کا ذکر کیا جائے تو حکومت اس میں دفعہ 370 کی منسوخی کے معاملے کو شامل کرنے کی خواہش کا احترام کرے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا مذکورہ قرارداد میں کشمیر کے مسئلے پر ہمارا دوٹوک، باہمی یکجہتی اور اتفاقِ رائے پر مبنی موقف پارلیمان کے ذریعے دیا جائے گا جبکہ کل بھی اپوزیشن نے پاکستان کے بیانیے کی تائید کی تھی جس پر میں نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔

‘حکومت کو عوام کو متحد رکھنے میں ناکام رہی، احسن اقبال

پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 'کشمیر کی حرمت کے لیے پاکستان کا بچہ بچہ قربانی دینے کے لیے تیار ہے لیکن ہمارا پالا نااہل حکومت سے پڑا ہے جو اس اہم موقع پر لوگوں کو متحد رکھنے میں ناکام رہی۔'

انہوں نے کہا کہ 'بھارت نے یکطرفہ طور پر وہ قدم اٹھایا جس کی اسے 72 سال میں جرات نہ ہو سکی، مودی سرکار نے اقوام متحدہ کی قرارداد کے فیصلے کو ردی میں پھینکنے کی کوشش کی، بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی، بھارت کے اتنے بڑے اقدام کا ذکر قرارداد میں نہ ہونے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔'

لیگی رہنما احسن اقبال پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 'ہم نے گرفتار اراکین کے پروڈکشن آرڈر کو بھی مسئلہ نہیں بنایا لیکن ہمارے لیے حکومت کی پیش کردہ قرارداد ناقابل قبول تھی، حکومت نے اپوزیشن کے احتجاج کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی جبکہ حکومت ایوان کو تقسیم رکھنا چاہتی ہے تو اس کا فیصلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان اسمبلی کا کشمیر کے لیے خصوصی اجلاس بلایا گیا، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ بھارت کے اقدام کو قرارداد میں کس نے چھپایا، کارروائی شروع ہوئی تو وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایوان میں موجود نہیں تھے، جاننا چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے لیے اس سے بڑی مصروفیات کیا ہیں؟'

احسن اقبال نے کہا کہ 'معاملے پرغیر ملکی سفرا کو بلا کر ریڈ فلیگ بلند کیا جاتا کہ پاکستان کا موقف اس پر یہ ہے، بھارت میں غیر ملکی سفیروں کو بریفنگ دی گئی، پاکستان میں ایسا نہیں کیا گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر خارجہ خصوصی طیارے پر آکر اراکین پارلیمنٹ کو بریفنگ دے کر واپس حج پر چلے جاتے۔'

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کہتے تھے کہ امریکا سے ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں، وزیر اعظم کے دورے کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بدل دی؟ جبکہ بھارت نے فروری میں ہی امریکا کو اپنے اقدام سے آگاہ کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی پالیسی پر شدید اختلاف رکھتے ہیں، ہم اختلاف کریں گے کیونکہ یہ نااہل حکومت ہے جبکہ اپوزیشن حکومت سے بڑھ کر کشمیر کامقدمہ لڑے گی۔'

آرٹیکل 370 منسوخی کا معاملہ

واضح رہے بھارتی حکومت نے گزشتہ روز صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

خصوصی آرٹیکل ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

اس قانون کے خاتمے کی بھارتی حزب اختلاف اور کشمیر کے حریت رہنماؤں نے شدید مذمت کرتے ہوئے اس دن کو بھارتی جمہوریت کے لیے سیاہ ترین دن قرار دیا تھا۔

دوسری جانب پاکستان نے بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق اعلانات کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کیا تھا۔

دفتر خارجہ سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ بھارتی حکومت کا کوئی یک طرفہ اقدام متنازع حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں