آرٹیکل 370، 35 اے کا خاتمہ بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 06 اگست 2019
شاہ محمود قریشی نے او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی—فوٹو: بشکریہ ریڈیو پاکستان
شاہ محمود قریشی نے او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی—فوٹو: بشکریہ ریڈیو پاکستان

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ لوک سبھا کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرنا بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے۔

ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) رابطہ گروپ کا ہنگامی اجلاس ہوا۔

او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس میں پاکستان کے علاوہ سعودی عرب، آذربائیجان، ترکی اور دیگر رکن ممالک کے نمائندے بھی شریک تھے۔

مزید پڑھیں: بھارت نے غلطی کی تو خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے، وزیراعظم

اس اجلاس میں پاکستانی وفد کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی اور مقبوضہ کشمیر کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر آگاہ کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 1989 سے اب تک مقبوضہ جموں اینڈ کشمیر میں بھارتی فورسز نے تقریباً ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا گیا، 22 ہزار کشمیری خواتین بیوہ ہوئیں، ایک لاکھ 8 ہزار بچے یتیم ہوئے جبکہ 12 ہزار خواتین کا ریپ کیا گیا۔

وزیر خارجہ نے کہا بھارت کی جانب سے دنیا کے سب سے زیادہ عسکری علاقے مقبوضہ کشمیر میں مزید فوجیں بھیجنا، تعلیمی اداروں کو بند کرنا اور ایمرجنسی کے نفاذ جیسے اقدامات بھارتی مقاصد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر پاکستان کے خدشات سے متعلق اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور جنرل سیکریٹری او آئی سی کو آگاہ کیا تھا۔

اجلاس کے دوران شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں اٹھائے گئے اقدامات جنوبی ایشیا میں امن کو خطرات لاحق کرسکتے ہیں، لہٰذا اجلاس کے تمام شرکا پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے کی طرف اپنی توجہ فوری مبذول کریں۔

’او آئی سی نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ دہرایا‘

اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ او آئی سی کے انسانی حقوق کمیشن نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ دہرایا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ او آئی سی کے کشمیر رابطہ گروپ نے ہنگامی اجلاس میں بھارت کے یک طرفہ اقدام کی مذمت کی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سمیت ہر فورم سے شدید ردعمل سامنے آیا اور بھارتی اقدام کو مسترد کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خدشہ تھا کہ بھارت کچھ نہ کچھ کرنے والا ہے اور اس خدشے کو سامنے رکھتے ہوئے یکم اگست کو اپنے تحفظات سے متعلق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو خط لکھا تھا اور اسے سلامتی کونسل میں پیش کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج ملیحہ لودھی، سلامتی کونسل کے صدر سے ملاقات میں وہ خط اور پاکستان کا نقطہ نظر پیش کریں گی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ او آئی سی کے کشمیر رابطہ گروپ نے اجلاس میں ان قراردادوں کو بنیاد بناتے ہوئے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی بات کی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ او آئی سی کے انسانی حقوق کمیشن نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ دہرایا ہے تاکہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات کرسکیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہم عالمی مبصرین کو سہولت فراہم کرے گا، بھارت انسانی حقوق کمیشن کو اجازت دینے سے کیوں گھبراتا ہے یہ بات بھی قابل غور ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز بھارتی پارلیمان نے مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کا آرٹیکل 370 کو ختم کردیا تھا اور مقبوضہ وادی کو 2 حصوں لداخ اور جموں اور کشمیر میں تقسیم کردیا تھا۔

بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے اس اقدام مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی

بھارت کی جانب سے ختم کیے گئے آرٹیکل 370 کے ساتھ اسی میں شامل شق 35 اے کا بھی خاتمہ ہوگیا تھا، یہاں واضح رہے کہ آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

اس قانون کے خاتمے کی بھارتی حزب اختلاف اور کشمیر کے حریت رہنماؤں نے شدید مذمت کرتے ہوئے اس دن کو بھارتی جمہوریت کے لیے سیاہ ترین دن قرار دیا تھا۔

دوسری جانب پاکستان نے بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق اعلانات کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں