مقبوضہ کشمیر میں کرفیو چوتھے ہفتے میں داخل، پابندیاں بدستور برقرار

اپ ڈیٹ 26 اگست 2019
کرفیو اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیری گھروں میں قید ہیں — فائل فوٹو / اے پی
کرفیو اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیری گھروں میں قید ہیں — فائل فوٹو / اے پی

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور پابندیاں چوتھے ہفتے میں داخل ہوگئی ہیں اور مسلسل 22 روز کے لاک ڈاؤن سے وادی میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق کرفیو اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیری گھروں میں قید ہیں اور نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔

احتجاج کے خوف سے قابض فوج نے گشت بڑھا دیا ہے اور گھروں سے نکلنے پر نوجوانوں اور بچوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ حریت قیادت اور سیاسی رہنماؤں سمیت اب تک 10 ہزار سے زائد کشمیری گرفتار کیے جاچکے ہیں۔

سری نگر میں سول سیکریٹریٹ کی عمارت سے مقبوضہ کشمیر کا پرچم بھی اتار دیا گیا، یہ پرچم 1952 سے باقاعدگی سے لہرایا جاتا تھا، سیکرٹریٹ کی عمارت کی چھت پر ہفتے کے روز تک مقبوضہ کشمیر اور بھارتی جھنڈے دیکھے جاسکتے تھے۔

روزانہ مغرب کے وقت ان پرچموں کو اتار دیا جاتا اور صبح صادق ہی لہرادیا جاتا تھا مگر اتوار 25 اگست کی صبح سے کشمیر کا پرچم لہرایا نہیں گیا اور صرف بھارتی پرچم لہرایا گیا ہے۔

آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے ہر شخص سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی مظالم کا بہادری سے مقابلہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے کہ ہم پوری ہمت و حوصلے سے بھارتی مظالم کے خلاف لڑیں۔

مزید پڑھیں: 'مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت مسلم اکثریتی ریاست ہونے پر ختم کی گئی'

ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر وہ اپنی پوری مسلح افواج کو بھی مقبوضہ کشمیر لے آئے تب بھی یہاں کے عوام اپنی آزادی اور حق خود ارادیت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔'

دوسری جانب کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مختلف ممالک میں مظاہرے بھی جاری ہیں۔

شکاگو میں مظاہرین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر کے حل کی اپیل کی۔

استنبول اور بنگلور میں بھی لوگوں نے جمع ہو کر کشمیریوں کے لیے صدا بلند کی۔

ایرانی پارلیمنٹ میں کشمیریوں کے حق میں قرارداد پیش کر دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: امریکا کا گرفتار افراد کو رہا، حقوق بحال کرنے کا مطالبہ

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ 5 اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا اور وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔

اس خصوصی آرٹیکل کو ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی، تاہم لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔

بھارت نے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا جبکہ بھارتی اقدام کے خلاف احتجاج کرنے والے کشمیریوں پر فائرنگ کرکے متعدد مظاہرین کو شہید اور 100 سے زائد کو زخمی کردیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو خط بھی ارسال کیا تھا، پاکستان کے مطالبے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر پر غور کے لیے تاریخی مشاورتی اجلاس گزشتہ روز طلب کیا تھا جبکہ پاکستان کے اس مطالبے کی چین نے بھی حمایت کی تھی۔

یہ 50 سال میں پہلا موقع تھا جب خصوصی طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری تنازع پر غور کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا تھا جو بند کمرے میں منعقد ہوا اور اس میں شرکا کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: کشمیر جلد بنے گا بھارت کا افغانستان!

علاوہ ازیں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی روز سے جاری کرفیو اٹھایا جائے جس کے باعث پوری وادی میں معمولاتِ زندگی مفلوج ہیں۔

خیال رہے کہ او آئی سی کے جنرل سیکریٹریٹ نے جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی محدود کرنے اور عید کے موقع پر بھی مکمل لاک ڈاؤن اور اجتماعات کی اجازت نہ دے کر مسلمانوں کو ان کی مذہبی روایات پر عمل سے روکنے کی رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اس کے ساتھ انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین اور معیارات کے مطابق سلوک کیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں