قصور: لاپتہ ہونے والے 3 بچوں کی لاشیں برآمد

اپ ڈیٹ 18 ستمبر 2019
پولیس نے لاشیں تحویل میں لے کر شواہد اکٹھے کر لیے ہیں اور واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز
پولیس نے لاشیں تحویل میں لے کر شواہد اکٹھے کر لیے ہیں اور واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز

صوبہ پنجاب کے شہر قصور سے لاپتہ ہونے والے 3 بچوں کی لاشیں برآمد کر لی گئیں، واقعے پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کر لی۔

قصور میں والدین ایک مرتبہ پھر اپنے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں جہاں ویڈیو اسکینڈل اور زینب قتل کیس کے بعد ایک مرتبہ پھر بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا انکشاف ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: قصور:کمسن بچی کے مبینہ ریپ، قتل پر احتجاج، توڑ پھوڑ

قصور سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران اغوا کیے گئے 3 بچوں کی لاشیں چونیاں کے علاقے سے برآمد ہوئیں۔

قتل کیے گئے دو بچوں کی باقیات اور ایک بچے کی لاش چونیاں انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے سے ملیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے بچوں کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کر کے ان کی لاشیں پھینک دی گئیں۔

مقامی افراد کے مطابق گزشتہ ایک سے دو ماہ کے دوران علاقے سے 5 بچے لاپتہ ہوئے جن میں سے 3 کی لاشیں مل گئی ہیں جبکہ دو بچے اب بھی لاپتہ ہیں لیکن پولیس کا کہنا تھا کہ مذکورہ عرصے میں تین بچے لاپتہ ہوئے۔

ایک بچے کی شناخت 8 سالہ سفیان کے نام سے ہوئی ہے جبکہ 2 ناقابل شناخت بچوں کی لاشیں ایک ماہ سے زائد پرانی ہونے کے سبب ناقابل شناخت ہیں اور ان کی شناخت کے لیے ڈی این اے کی مدد لی جائے گی۔

پولیس نے لاشیں تحویل میں لے کر شواہد اکٹھے کر لیے اور واقعے کی تحقیقات شروع کردیں۔

یہ بھی پڑھیں: زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا، وزیر اعلیٰ پنجاب

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب عارف نواز سے رپورٹ طلب کر لی، جنہوں نے ڈی پی او قصور کو فوری طور پر واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

ڈی پی او قصور عبدالغفار قیصرانی نے کہا کہ واقعے کی تفتیش کے لیے 3 سے 4 ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جو اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری موبائل لیب آ گئی ہے جو تمام ثبوت اکٹھے کر رہی ہے اور ہمیں پوری امید ہے کہ ہم ایک سے دو دن کے اندر ملزمان کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔

مزید پڑھیں: ننھی زینب کے قاتل عمران کو پھانسی دے دی گئی

ڈی پی او قصور نے بتایا کہ جس دن بچے غائب ہوئے تھے اسی دن ایف آئی آر درج کر لی گئی تھی اور واقعے کی تفتیش جاری تھی اور آج ان کی لاشیں ایک سنسان جگہ سے ملی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دو بچے بالترتیب 2 اگست اور 8 اگست کو غائب ہوئے تھے اور ان کی ایف آئی آر درج کر کے معاملے کی تفتیش شروع کردی گئی تھی جبکہ ایک بچہ 16 ستمبر کو لاپتہ ہوا تھا جس کی لاش آج 17 ستمبر کو ملی۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ قصور میں بچوں کے قتل کا کوئی واقعہ رپورٹ ہوا ہو بلکہ اس سے قبل گزشتہ سال قصور کی رہائشی زینب کی لاش ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل: ملزم عمران مزید 7 بچیوں کے قتل کیسز میں نامزد

قصور کی رہائشی 6 سالہ زینب 4 جنوری 2018 کو لاپتہ ہوئی تھی اور 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ان کی لاش ملی جس پر ملک بھر میں شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

13 جنوری کو ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے ملزم عمران کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے 17 فروری کو زینب کو ریپ کے بعد قتل کے جرم میں عمران علی کو 4 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ 41 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔

مزید پڑھیں: زینب قتل ازخود نوٹس: ’ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوؤں کی تصدیق نہیں ہوئی‘

مجرم عمران علی نے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے مجرم عمران کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

بعد ازاں مجرم عمران نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور عدالت عظمیٰ سے بھی مجرم عمران علی کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا اور بعد ازاں 17 اکتوبر 2018 کو اس سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

honorable Sep 18, 2019 08:16am
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب عارف نواز سے رپورٹ طلب کر لی، جنہوں نے ڈی پی او قصور کو فوری طور پر واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ ڈی پی او قصور عبدالغفار قیصرانی نے کہا کہ واقعے کی تفتیش کے لیے 3 سے 4 ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جو اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہیں۔what should what should we expect the consequences of this report to cm. expect from these teams, as the officer himself is in doubt about the number of teams. he says three to four teams are working.