قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کر دیا اور لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ملزم کا مزید 3 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کرلیا۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر ایک کے ایڈمن جج سجاد احمد نے ملزم عمران کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کا ڈی این اے 7 دوسرے کیسز سے بھی میچ ہو گیا ہے ملزم عمران نے زینب سمیت 8 بچیوں کو اغوا کر کے قتل کیا۔

مزید پڑھیں: زینب قتل کا ملزم 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

تفتیشی افسر نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم عمران بچیوں کو چیز دینے کے بہانے اغوا کرتا تھا، ملزم سے مزید تفتیش کرنا چاہتے ہیں لہذا عدالت سے استدعا ہے کہ ملزم کو پانچ روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا جائے۔

عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد 8 بچیوں کے قتل میں ملوث ملزم کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

واضح رہے کہ ملزم عمران کو سخت سیکیورٹی میں انسداد دہشت گردی عدالت میں لایا گیا تھا۔

24 جنوری 2018 کو قصور میں کم سن زینب کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جبکہ عدالت نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: پولیس کا ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ

ملزم عمران کو سخت سیکیورٹی میں صوبائی دارالحکومت لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت لایا گیا اور جج سجاد احمد کے روبرو پیش کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملزم عمران کو پاکپتن سے گرفتار کیا گیا تھا۔

قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: زینب قتل کیس: 'تالیوں کے بجائے افسوس کی ضرورت تھی'

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس میں گرفتار ہونے والے روحانی پیشوا کی ’خود کشی‘

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

خیال رہے کہ 23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں