جج کے خلاف ریفرنس عدلیہ کی آزادی کیلئے خطرہ نہیں، اٹارنی جنرل

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2019
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا تھا — فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا تھا — فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز

اسلام آباد: اٹارنی جنرل انور منصور خان نے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو ٹھوس شواہد کے بغیر عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے میں اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروایا تھا، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مختلف الزامات لگائے گئے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدلیہ کے لیے سمجھے جانے والے خطرے کے بغیر، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست میں بیان کی گئی شکایت محض ایک عام شکایت ہیں اور آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے‘۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت، سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) اور سیکریٹری ایس جی سی کی جانب سے پہلے ہی جواب جمع کروائے جاچکے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کو چیلنج کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ قیاس آرائیوں اور متنازع حقائق کو بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کے تحت دائرہ کار سنبھالنے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر عدالت نظرِ ثانی نہیں کرسکتی، اٹارنی جنرل

انہوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کی آزادی جمہوری نظام میں قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے تاہم ججز کا احتساب بھی اتنا ہی ضروری ہے‘۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ حقیقت کہ ججز کے اختیارات بہت وسیع ہیں، یہ اپنے آپ میں ایک اشارہ ہے کہ ان اختیارات کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

عدالت میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بارہا کہا گیا ہے کہ بدنیتی کا الزام ثابت کرنا سب سے زیادہ مشکل ہے اور یہ ذمہ داری الزام عائد کرنے والے پر ہی عائد ہوتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اس وقت بدنیتی کے مبہم اور غیر یقینی الزامات عائد کیے گیے جو آئین کے آرٹیکل 211 کے تحت آئینی بار کو شکست نہیں دے سکتے، جو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائیوں پر کسی عدالت کی جانب سے پوچھ گچھ کی پابندی عائد کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو جواب جمع کروانے کی ہدایت

جواب میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر، وزیراعظم اور وزرا کو اپنی ذمہ داریوں پر استثنیٰ حاصل ہے اور وہ سپریم کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کو جواب دہ نہیں ہیں۔

جواب میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جائیداد خریدنے کے ذرائع بتانے سے گریز کررہے ہیں جبکہ ان کی جانب سے لگائے گئے الزامات محظ مفروضوں پر مبنی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے برطانیہ میں قیمتی جائیدادوں کے مالک ہیں جو 2004 اور 2013 میں اس وقت خریدی گئیں تھیں جب ان کے پاس آمدنی کا کوئی اور ذریعہ موجود نہیں تھا۔

جواب میں کہا گیا کہ اس کا نتیجہ نکلتا ہے کہ برطانیہ میں 3 جائیدادوں کے اصل مالک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں اور یہ جائیدادیں ’بے نامی‘ ہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کو درخواست گزار جج کا طرزِ عمل ان جائیدادوں کی خریداری میں مالی بے ضابطگیاں کرنے سے متعلق انکوائری کی تحقیقات کی گئیں تھیں۔

جواب میں مزید کہا گیا تھا کہ اس سوال کا سادہ اور سیدھا جواب ان جائیدادوں کی خریداری میں استعمال کیے جانے والے ذرائع، غیر ملکی زرمبادلہ کے حصول کا طریقہ اور اس کی برطانیہ منتقلی سے متعلق بتانا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز کی آئینی درخواست کی سماعت کیلئے فل کورٹ کی استدعا

اس میں مزید کہا گیا کہ درخواست گزار جج نے جوڈیشل کونسل کو جواب دینے کے بجائے توہین آمیز اقدام اٹھایا اور شکایت کنندہ کو بدنام کرنا شروع کردیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر مملکت نے ریفرنس ارسال کرتے ہوئے دانستہ طور پر جج کی اہلیہ اور بچوں کا نام صرف انہیں تنازع سے دور رکھنے کی خاطر استعمال نہیں کیا۔

جواب میں کہا گیا کہ شکایت کنندہ کی کردار کشی کے بجائے درخواست گزار جج کو فنڈز کے اصل ذرائع، غیر ملکی زرمبادلہ کے حصول اور جائیداد کی خریداری کے لیے رقم کی برطانیہ میں منتقلی سے متعلق سچ بیان کرنا چاہیے تھا۔

علاوہ ازیں اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست میں خود پر عائد الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست گزار کے جج کے الزامات کا جواب جمع کروادیا تھا اور اس بات کو مسترد کیا کہ جواب میں استعمال کی گئی زبان توہین آمیز تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ایک ریفرنس خارج

سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا کہ وزیر قانون کا بار کونسلز میں چیک تقسیم کرنا غلط نہیں اور بطور اٹارنی جنرل سپریم جوڈیشل کونسل کی معاونت کرنا آئینی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے اس الزام کو بھی مسترد کیا کہ وہ (اٹارنی جنرل) اور وزیر قانون عدلیہ پر کوئی حملہ یا ان کے خلاف کوئی سازش کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کی سپریم جوڈیشل کونسل میں سماعت کو مذکورہ جج نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

اس معاملے پر عدالت عظمیٰ نے 10رکنی فل کورٹ بنایا تھا، جس کی سربراہی جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے ہیں اور گزشتہ دنوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت بھی ہوئی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے صدارتی ریفرنس چیلنج کردیا

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیر قانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ رواں سال مئی میں شروع ہوا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی درخواست،'لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ کیس کیوں سنا جارہا ہے'

تاہم اس ریفرنس سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبروں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو متعدد خطوط لکھے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں۔

بعدازاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے جج کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے اور ان سے جواب مانگنے پر ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

تاہم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اس ریفرنس کو خارج کردیا اور کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں