بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل، طلبہ کا ایف سی پوسٹ ہٹانے، یونین کی بحالی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2019
طلبہ نے مستعفی وائس چانسلر اور دیگر ملزمان کو گرفتار کرنے کا بھی مطالبہ کیا — فوٹو: ڈان نیوز
طلبہ نے مستعفی وائس چانسلر اور دیگر ملزمان کو گرفتار کرنے کا بھی مطالبہ کیا — فوٹو: ڈان نیوز

بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ نے ہراساں کرنے اور بلیک میلنگ کے واقعار میں مبینہ طور پر ملوث یونیورسٹی حکام کے خلاف مسلسل 17ویں روز بھی احتجاج کیا اور اپنے مطالبات دہرائے۔

طلبہ نے اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد مستعفی ہونے والے وائس چانسلر اور دیگر ملزمان کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے طلبہ یونین بحال کرنے اور یونیورسٹی سے ایف سی کی چیک پوسٹ ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا۔

واضح رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کا کیس گزشتہ ماہ سامنے آیا تھا جس کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ نے وفاقی تحقییقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: طلبہ ہراسانی کیس: صوبائی اسمبلی کی کمیٹی نے تحقیقات کا آغاز کردیا

سماجی رہنما جبران ناصر بھی بلوچستان یونیورسٹی پہنچے اور طلبہ کے ساتھ یک جہتی کرتے ہوئے ان کے احتجاج میں شامل ہوئے۔

یونیورسٹی میں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جبران ناصر نے طلبہ کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے یونیورسٹی کی طلبہ تنظیموں کو ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے یونین کی بحالی کے لیے کوششیں کرنے پر بھی زور دیا۔

بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل

خیال رہے کہ 14 اکتوبر کو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال مندوخیل نے بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین کی جانب سے طلبہ کو ہراساں کرنے کی شکایات پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

ایف آئی اے نے بلوچستان یونیورسٹی کے 3 افسران سے طلبہ کو ہراساں کیے جانے کے حوالے سے تفتیش کی تھی۔

جس کے بعد کیس کی کئی ہفتوں تک تفتیش کرنے والے ادارے ایف آئی اے نے طالبات کو ہراساں کرنے کی 12ویڈیوز کا انکشاف کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو ہراساں کرنے کی شکایت، چیف جسٹس کا از خود نوٹس

ایف آئی اے کے سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے افسران کے ہاتھوں ہراساں ہونے والے طلبہ میں اکثریت طالبات کی ہے۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ ملزمان نے طالبات کو ہراساں کرنے کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں کی موجودگی کے باوجود مزید 6 اضافی کیمرے نصب کیے تھے۔

مذکورہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد یونیورسٹی کے طلبہ میں سخت غم و غصہ پھیل گیا تھا اور متعدد طلبہ تنظیموں کی سے عہدیداران پر دباؤ ڈالنے اور طلبا و طالبات کو پراساں کرنے میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے کیمپس کے اندر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

جس پر بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال عارضی طور پر عہدے سے دستبردار ہوگئے تھے تاکہ ایف آئی اے طالبات کو بلیک میل اور ہراساں کرنے سے متعلق اسکینڈل کی شفاف تحقیقات کرسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں