پارک لین ریفرنس: آصف زرداری پر 25 مارچ کو فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان

اپ ڈیٹ 03 مارچ 2020
احتساب عدالت نے آصف زرداری کی ایک روز کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی منظور کرلی — فائل فوٹو: اے ایف پی
احتساب عدالت نے آصف زرداری کی ایک روز کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی منظور کرلی — فائل فوٹو: اے ایف پی

احتساب عدالت نے پارک لین ریفرنس میں سابق صدر آصف زرداری کی آج حاضری سے استثنی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ 25 مارچ مقرر کردی۔

احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے پارک لین ریفرنس پر سماعت کی جہاں سابق صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور عدالت میں پیش ہوئیں اور سابق صدر کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا کہ آصف زرداری بیماری کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔

دوران سماعت احتساب عدالت کے جج نے استفسار کیا کہ مرکزی ملزم کا کیا ہوا جس پر نیب استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم گرفتار ہے، ویڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کی جائے اور اس حوالے سے جیل حکام سمیت متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی جائیں۔

جج اعظم خان نے کہا کہ اس حوالے سے تحریری درخواست دے دیں۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور

سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ویڈیو لنک پر بیان اتنا آسان نہیں، حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت کو لکھا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میمو کیس میں بھی ملزم کا بیان ویڈیو لنک پر لیا گیا، جنرل مشرف نے بھی بیان ویڈیو لنک پر دیا تھا، یہاں سے کوئی نہیں گیا تھا۔

احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے کہا کہ اس کو لیگل کور کیسے دیں گے، کیا ویڈیو لنک پر بیان کے لیے عدالت اپنا نمائندہ بھجوائے گی۔

اس پر سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ 'رجسٹرار عدالت کو بھجوایا جا سکتا ہے'۔

سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پلی بارگین کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، زین ملک کی پلی بارگین کا پراسیس شروع کر دیا گیا ہے اور مختلف کیسز میں واجبات کی ادائیگی کا طریقہ کار طے کر لیا گیا ہے۔

سماعت کے بعد احتساب عدالت نے سابق صدر آصف زرداری کی حاضری سے ایک دن کے لیے استثنی کی درخواست منظور کر لی۔

یہ بھی پڑھیں: پارک لین ضمنی ریفرنس: آصف زرداری پر 22 جنوری کو فرد جرم عائد ہونے کا امکان

عدالت نے پارک لین ریفرنس میں ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 25 مارچ کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

فریال تالپور کی منجمد بینک اکاؤنٹس کھلوانے کی درخواست

دوسری جانب احتساب عدالت میں فریال تالپور کے مجمند بینک اکاؤنٹس کو کھلوانے کے لیے دائر درخواست پر جج محمد اعظم خان نے سماعت کی۔

دوران سماعت فریال تالپور نے روسٹرم پر آکر عدالت کو بتایا کہ 'نیب نے میرے اور بچوں کے بینک اکاونٹس بند کر کے بہت زیادتی کی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرے بچوں کے بہت اخراجات ہیں، روز مرہ کے امور اور گھر چلانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہر بار اس معاملے پر تاریخ پر تاریخ دے دی جاتی ہے'۔

عدالت میں وکیل دفاع فاروق ایچ نائیک نے نیب کا خط پڑھ کر سنایا اور فریال تالپور کے بجلی، گیس، پانی، اسکول فیس سمیت دیگر بلز عدالت میں پیش کیے۔

مزید پڑھیں: روشن سندھ پروگرام کیس: شرجیل میمن کی عبوری ضمانت میں 11 فروری تک توسیع

وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ نیب نے فریال تالپور کے ساتھ ان کی صاحبزادیوں عائشہ تالپور اور فاطمہ تالپور کے اکاؤنٹس بھی منجمند کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب نے جعلی بینک اکاونٹس میں زرداری گروپ آف کمپنیز کے نام پر یہ اکاؤنٹس منجمند کیے جبکہ ذاتی اکاؤنٹس کو جعلی اکاؤنٹس سے جوڑنے سے متعلق کوئی شواہد پیش نہیں کر سکا۔

انہوں نے کہا کہ 'الزام زرداری گروپ پر ہے اور ذاتی اکاؤنٹس منجمند کیے گئے'۔

احتساب عدالت کے جج نے استفسار کیا کہ 'درخواست گزار کے آمدن کے ذرائع کیا ہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ فریال تالپور کا زرعی کاروبار ہے'۔

احتساب عدالت نے فریال تالپور کے ذرائع آمدن کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ روز تک کے لیے ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر افراد جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کرپشن اور پارک لین پرائیویٹ لمیٹڈ اور پارتھینن (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے لیے مالی معاونت میں غبن کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔

نیب کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ ان بے ضابطگیوں کی وجہ سے 3 ارب 77 کروڑ روپے کے قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔

واضح رہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیس 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے ہے، جس میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی گئیں۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

15 مارچ 2019 کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل 2019 تک کے لیے ملتوی کی تھی اور 9 اپریل 2019 کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔

ادھر اسلام آباد میں ایک کمپنی پارک لین اسٹیٹ پرائیویٹ لمیٹیڈ کی جانب سے مبینہ طور پر زمین کی خریداری کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب نے گزشتہ سال 13 دسمبر کو آصف علی زرداری اور بلاول دونوں کو راولپنڈی میں طلب کیا تھا۔

7 جنوری کو عدالت نے آصف زرداری اور دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ 22 جنوری مقرر کی تھی تاہم اس کے بعد سے ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کے باعث ان پر اب تک فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں