آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2019
آصف زرداری نے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
آصف زرداری نے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرلی۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔

اس موقع پر آصف زرداری اور فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران آصف زرداری کے وکیل کے علاوہ ان کے صاحبزادے اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری بھی موجود تھے۔

عدالت میں سماعت کے آغاز پر پمز ہسپتال کی جانب سے آصف زرداری کی میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی، جس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا نیب نے رپورٹ دیکھ لی ہے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر کو میڈیکل رپورٹ زور سے پڑھنے کی ہدایت کی، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے سابق صدر آصف علی زرداری کی میڈیکل رپورٹ پڑھنا شروع کی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر نیا میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا، میڈیکل بورڈ نے آصف علی زرداری کا تفصیلی معائنہ کیا۔

عدالت میں پیش میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ آصف زرداری مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور انہیں دل کا عارضہ بھی ہے۔

میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزم طویل عرصہ سے شوگر کا مریض ہے جبکہ ان کے 3 اسٹنٹ بھی ڈلے ہوئے ہیں۔

میڈیکل رپورٹ کے مطابق آصف زرداری ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریض ہیں، ان کو دل کا عارضہ بھی لاحق ہے جبکہ انہیں انجیوگرافی کی ضرورت ہے۔

عدالت کو پیش کردہ میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ آصف زرداری کے اسٹنٹ ڈالنے کے دوران انجیوپلاسٹی کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے اور جیل میں رہتے ہوئے ان کا علاج ممکن نہیں ہے۔

طبی رپورٹ میں بتایا گیا کہ آصف زرداری کا جیل میں رہنا ان کی جان کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سابق صدر ہسپتال میں ہی زیرعلاج ہیں، ان کے معاملے میں تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور ریفرنس بھی دائر کیا جاچکا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اس رپورٹ کے بعد ملزم کو اسی ہسپتال میں رکھا جائے گا۔

ساتھ ہی عدالت نے پوچھا کہ کیا سابق صدر اپنی مرضی کے معالج سے علاج کرا رہے ہیں، کیا نیب چاہتا ہے کہ آصف زردای کو قید کر کے قومی خزانے سے علاج جاری رکھا جائے؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر کوئی جواب نہیں دے سکے۔

بعد ازاں پاک لین اور میگا منی لانڈرنگ ریفرنس میں آصف زرداری کی ضمانت کو منظور کرتے ہوئے ایک، ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

علاوہ ازیں فریال تالپور کی درخواست پر نیب کا جواب نہ آنے پر معاملے کو 17 دسمبر تک ملتوی کردیا گیا۔

الزامات ثابت ہونے تک آصف زرداری بےگناہ ہیں، تحریری فیصلہ

بعد ازاں ہائی کورٹ نے آصف علی زرداری کی ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواستوں پر 5 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔

تحریری فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کیا جس میں کہا گیا کہ آصف زرداری پر منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں لیکن الزامات جب تک ثابت نہیں ہوتے آصف زرداری معصوم اور بے گناہ ہیں، لہٰذا انہیں ایک، ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض طبی بنیادوں پر ضمانت دی جارہی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ سابق صدر کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں منی لانڈرنگ کا مقدمہ زیر سماعت ہے لیکن صرف کسی کے خلاف مقدمہ زیر سماعت ہونے پر اس کے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوتے اور آصف زرداری کو بنیادی آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق میڈیکل رپورٹ کو دیکھتے ہوئے ضمانت نہ دینا آصف زرداری کے بنیادی حقوق کی خلاق ورزی ہو گی، قید میں ہوتے ہوئے آصف زرداری کا علاج قومی خزانے سے ہو رہا تھا لیکن ضمانت پر رہائی کے بعد وہ اپنی مرضی اور اپنے خرچ سے علاج کرائیں گے۔

تحریری حکمنامے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ جرم ثابت ہونے پر کسی کو ملی ضمانت کا ازالہ ممکن ہے، سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا بے قصور ثابت ہو جانے پر کسی کو پہلے قید میں رکھنے کا کوئی ازالہ نہیں ہوتا، لہٰذا زرداری کیس کے حقائق میں اس موقع پر ضمانت نہ دینا سزا دینے کے برابر ہوگا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ درخواستوں پر سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا گیا کیا وہ ضمانت کی مخالفت کریں گے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ اصول پہلے وضع ہو چکا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی ضمانت بعد از گرفتاری کے معاملے پر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کو 10 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہونے پر نیب نے گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ابتدائی طور پر ان کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔

بعد ازاں منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار آصف زرداری کا عدالتی ریمانڈ دے دیا گیا تھا اور انہیں جیل منتقل کردیا تھا، جہاں ان کی طبیعت خراب ہونے پر انہیں پمز منتقل کردیا گیا تھا، جہاں وہ زیر علاج ہیں۔

آصف زرداری کی درخواست

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں عدالت عالیہ میں سابق صدر کی جانب سے اپنے وکیل فاروق ایچ نائیک کے توسط سے عدالت میں جعلی اکاؤنٹس اور پارک لین کیسز میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔

آصف زرداری کی جانب سے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے دائر کی گئی درخواست میں قومی احتساب بیورو (نیب) اور احتساب عدالت نمبر 2 کو فریق بنایا گیا تھا۔

آصف زرداری نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا جبکہ ان کے اوپر بنائے گئے کیسز جعلی اور من گھڑت ہیں۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ آصف علی زرداری دل کے مریض ہیں اور ان کے 3 اسٹنٹ ڈلے ہوئے ہیں جبکہ ان کے سینے سے ہولٹر مانیٹر بھی لگا ہوا ہے تاکہ ڈاکٹر ان کی دھڑکن کو مانیٹر کرسکیں۔

ساتھ ہی آصف زرداری نے یہ موقف اپنایا کہ ان کو ذیابیطس کا مرض بھی ہے اور ان کا شوگر لیول اوپر اور نیچے خطرناک حد تک ہوتا رہتا ہے، جس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ درخواست گزار کو مزید بیماریاں بھی لاحق ہیں، لہٰذا ان کے علاج کے لیے طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کی جائے۔

آصف زرداری کے خلاف ریفرنسز

آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر افراد جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کرپشن اور پارک لین پرائیویٹ لمیٹڈ اور پارتھینن (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے لیے مالی معاونت میں غبن کے الزمات کا سامنا کررہے ہیں۔

نیب کی جانب سے الزام ہے کہ ان بے ضابطگیوں کی وجہ سے 3 ارب 77 کروڑ روپے کا قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔

جعلی اکاؤنٹس کیس کی بات کریں تو یہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے ہے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی گئیں۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔

ادھر اسلام آباد میں ایک کمپنی پارک لین اسٹیٹ پرائیویٹ لمیٹیڈ کی جانب سے مبینہ طور پر زمین کی خریداری کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب نے گزشتہ سال 13دسمبر کو آصف علی زرداری اور بلاول دونوں کو راولپنڈی میں طلب کیا تھا۔

اس حوالے سے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بتایا تھا کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کو پارک لین فرم کی جانب سے مبینہ طور پر لیے گئے قرض کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب نے طلب کیا تھا اور دعویٰ کیا کہ بلاول اس کمپنی کے معمولی شیئر ہولڈر اسی وقت بن گئے تھے جب ان کی عمر صرف ایک سال تھی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ یہ کمپنی آصف علی زرداری نے 31جولائی 1989 میں خریدی تھی اور جب 2008 میں انہوں نے صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالا تو وہ کمپنی کی ڈائریکٹر شپ سے مستعفی ہوگئے تھے، بلاول بھٹو زرداری نے کبھی بھی ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام نہیں دیں اور شیئر ہولڈر کی حیثیت سے ان کا کمپنی کے روزمرہ کے معمولات سے کوئی لینا دینا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں