اشرف غنی معاہدے کی وضاحت امریکا سے مانگیں، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2020
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق اگر ہٹ دھرمی سے کام لینا ہے تو بات آ گے نہیں بڑھ پائے گی — فائل فوٹو:ڈان نیوز
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق اگر ہٹ دھرمی سے کام لینا ہے تو بات آ گے نہیں بڑھ پائے گی — فائل فوٹو:ڈان نیوز

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکا-طالبان معاہدے میں یہ بات درج ہے کہ قیدیوں کا تبادلہ ہوگا صدر اشرف غنی کو چاہیے کہ وہ معاہدے کی وضاحت امریکا سے مانگیں۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی نے افغان امن عمل کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا کہ دوحہ میں جو امن معاہدہ ہوا وہ بہت بڑی پیش رفت ہے اب جو موقع میسر آیا ہے اسے گنوانا نہیں چاہیے۔

خیال رہے کہ 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں امن کے لیے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، معاہدے کے تحت 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگا تاہم اس سے قبل افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے گا لیکن افغان صدر نے قیدیوں کی رہائی کو مسترد کردیا تھا۔

شاہ محمود قریشی نے اپنے بیان میں کہا کہ 'افغان قیادت پر اب ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سازگار ماحول پیدا کرے جس سے گفتگو آ گے بڑھے'۔

انہوں نے کہا کہ 'دوحہ میں جو ہوا وہ پہلا قدم تھا اب اگلا قدم انٹرا افغان مذاکرات ہیں، اس کی اعتماد سازی کے لیے دونوں فریقین کو آگے بڑھنا چاہیے'۔

مزید پڑھیں: امریکا-طالبان امن معاہدے پر دستخط کے 2 روز بعد ہی افغانستان میں بم دھماکا

وزیر خارجہ نے افغان صدر اشرف غنی کو تجویز دی کہ انہیں مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے اور طالبان بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ عمل آسان نہیں ہے لیکن کامیاب نہیں ہوا تو نقصان افغانستان اور افغانستان کے عوام کا ہوگا'۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 20 سال کی جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوا، جنگ کوئی راستہ نہیں ہے، اب فریقین کو ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ افغان قیادت کی آزمائش ہے، وہاں جتنے دھڑے ہیں ان سب کی آزمائش ہے کہ وہ آگے بڑھتے ہیں یا اسی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں جو پہلے کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'پاکستان نیک نیتی سے چاہتا ہے کہ معاملات سدھریں، ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں اور اس کے لیے جو کردار ہم نے ادا کرنا تھا وہ ادا کیا اور دنیا نے اس کو سراہا'۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'اس معاہدے پر اگلا قدم اٹھانا افغانوں کا کام ہے، اس میں آگے بڑھنے کے لیے افغان جو اقدامات اٹھائیں گے پاکستان ان کی حمایت کرے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان ایک سازگار ماحول پیدا کر سکتا ہے ان کے فیصلے نہیں کر سکتا'۔

انہوں نے کہا کہ امریکا-طالبان معاہدے میں یہ درج ہے کہ قیدیوں کا تبادلہ ہوگا، صدر اشرف غنی کو چاہیے کہ وہ معاہدے کی وضاحت امریکا سے مانگیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'میری معلومات کے مطابق زلمے خلیل زاد مذاکرات کے حوالے سے افغان قیادت کو آگاہ کرتے رہے ہیں، ماضی میں بھی قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے، جب جنگ سے امن کی طرف بڑھتے ہیں تو خیر سگالی کے لیے یہ کرنا پڑتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی یکطرفہ نہیں دو طرفہ ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر ہٹ دھرمی سے کام لینا ہے تو بات آ گے نہیں بڑھ پائے گی، یہ ایک منطقی قدم ہے جو اٹھنا چاہیے'۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ 'معاہدوں کے ساتھ رویوں کو بھی ٹھیک کرنا ہو گا، رکاوٹیں ڈالنے والے تو پہلے بھی تھے اب سیاسی قیادت کا کمال یہ ہے کہ وہ ان کو نا کام بنائیں'۔

امریکا-افغان امن معاہدہ

واضح رہے کہ 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں امن کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔

اس معاہدے کے تحت افغانستان سے 14 ماہ میں غیر ملکی فوجیوں کا انخلا ہونا تھا جس کے بدلے میں افغان طالبان نے سرزمین کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے نہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

معاہدے کے تحت 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم اس سے قبل افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا۔

بعد ازاں افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ وہ عارضی معاہدے کو افغان حکام اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آغاز تک جاری رکھیں گے جو ممکنہ طور پر 10 مارچ کو ہوگا تاہم انہوں نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مسترد کردیا۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ 'بین الافغان مذاکرات کے لیے ہم پوری طرح تیار ہیں تاہم ہمیں ہمارے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا انتظار ہے'۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ 'اگر ہمارے 5 ہزار قیدی (جس میں 100 یا 200 کم یا زیادہ معنیٰ نہیں رکھتے) رہا نہیں کیے گئے تو بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے'۔

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے حوالے سے خبریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں