بھارت کے شہر بنگلور میں انتہا پسند ہندوؤں کے اعتراض اور دباؤ پر مسیح برادری کے قبرستان کے داخلی راستے پر نصب 12 فٹ لمبے مجسمے کو ہٹا دیا گیا۔

بنگلور کے آرچ بشپ پیٹر مچاڈو نے مقامی پولیس کی جانب سے دیہی ضلع میں مسیحی قبرستان کی جگہ پر نصب مجسمے کو ہٹانے کی مذمت کی۔

مزیدپڑھیں: سال 2019: بھارت میں اقلیتوں کیلئے خوف و تشدد کی علامت کا ایک اور برس

انہوں نے بتایا کہ ہندو بنیاد پرستوں نے اس مجسمے پر اعتراض کیا تھا اور میسح برداری کے افراد کو قبرستان کے قریب آنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔

واضح رہے کہ کرناٹک کی ریاستی حکومت نے دوڈاساس گاراہلی گاؤں میں مسیحی برادری کے مُردوں کی تدفین کے لیے 4.5 ایکڑ اراضی مختص کی تھی۔

آرچ بشپ پیٹر مچاڈو نے کہا کہ 'یہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے کہ پولیس نے محض چند انتہا پسند ہندوؤں کے دباؤ میں آکر مجسمہ ہٹا دیا'۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کا عمل مقامی سطح پر مذہبی آہنگی کو متاثر کرے گا اور یہ عمل بھارتی آئین میں تفویض مذہبی آزادی کے منافی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت قانون کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج

کرناٹک میں اس وقت ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔

پارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مذہبی اقلیتوں نے ہراساں ہونے کی متعدد شکایت درج کی ہیں۔

ہندو قوم پرست اکثر مسیحی برادری کے افراد پر مذہب کی 'جبری تبدیلی' کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں جبکہ متعدد ریاستوں نے مذہبی تبدیلی پر پابندی عائد کی ہے۔

آرچ بشپ پیٹر مچاڈو نے کہا کہ مسیحی برادری امن پسند لوگ ہیں، جو ملک کے اصولوں کو مانتے ہیں اور ذات، رنگ یا مذہب سے قطع نظر قوم کے لیے بے لوث خدمت پیش کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ حال ہی میں امریکا نے عالمی مذاہب کو حاصل مذہبی آزادی سے متعلق سالانہ رپورٹ 2018 جاری کی ہے جس میں تصدیق کی گئی ہے کہ بھارت میں انتہاپسند ہندوؤں نے مسلمان اور ہندوؤں کی نچلی ذات 'دلت' کو دھمکیاں دیں، ہراساں کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔

امریکی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’اس حقیقت کے باوجود کہ بھارتی اعداد وشمار میں واضح ہے کہ گذشتہ 2 برسوں میں لسانی فسادات کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن نریندر مودی کی انتظامیہ نے مذکورہ مسئلے کے حل پر کبھی توجہ نہیں دی‘۔

مزیدپڑھیں: بھارت: جنونی ہندوؤں کا مسلمان بزرگ پر تشدد، زبردستی سور کا گوشت کھلا دیا

واضح رہے کہ ہومن رائٹس واچ کی ساؤتھ ایشیا ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا تھا کہ رپورٹ کے مطابق مئی 2015 سے لے کر گذشتہ برس دسمبر تک ایسے حملوں میں کم از کم 44 افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے الزام عائد کیا تھا کہ ’ان میں سے 36 افراد مسلمان تھے اور تقریباً تمام مقدمات میں پولیس نے یا تو ابتدائی تحقیقات روک دیں، طریقہ کار کو نظر انداز کیا اور قتل کی واردات یا اس کی پردہ داری میں خود پولیس ملوث تھی‘۔

بھارت میں ہندو توا کا تصور اس قدر گہری جڑیں کر گیا کہ ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ہندو انتہا پسندوں کی اکثریت مہاتما گاندھی کو 'غدار' قرار دیتی ہے حالانکہ وہ خود ایک کٹر ہندو تھے، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گاندھی کے قاتل کو ہیرو کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں