’ازدواجی معاملات میں اہل خانہ کی مداخلت سعودیہ میں طلاق کا بڑا سبب‘

اپ ڈیٹ 09 مارچ 2020
میاں اور بیوی کے درمیان اختلافات بھی طلاق کا بڑا سبب ہیں—فائل فوٹو: سعودی گزٹ
میاں اور بیوی کے درمیان اختلافات بھی طلاق کا بڑا سبب ہیں—فائل فوٹو: سعودی گزٹ

اسلامی دنیا کے اہم ترین ملک اور گزشتہ چند سال سے خواتین کو خود مختاری دینے میں پیش پیش سعودی عرب کی فیملی قوانین کی ماہر اور نامور خاتون وکیل نسرین الغامدی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں میاں اور بیوی کے ازدواجی معاملات میں ان کے اہل خانہ کی مداخلت ہی طلاق کا سب سے بڑا سبب ہے۔

نسرین الغامدی نے یہ بیان سعودی عرب میں طلاق کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر دیا ہے، اس وقت وہاں ہر گھنٹے 7 یا اس سے زائد طلاقیں ہو رہی ہیں۔

جنوری 2020 کے آخر میں سعودی حکومت نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ملک میں ہر گھنٹے میں 7 جبکہ یومیہ 168 طلاقیں ہو رہی ہیں، اس سے قبل اگست 2019 میں کیے گئے ایک سروے سے معلوم ہوا تھا کہ سعودی عرب میں ہر گھنٹے میں 5 طلاقیں ہو رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: ایک گھنٹے میں تین طلاق

اگست 2019 میں کیے جانے والے سروے سے معلوم ہوا تھا کہ ملک میں 84 فیصد طلاقیں شوہر اور بیوی کے درمیان بات چیت نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

سروے میں شوہر اور بیوی کے درمیان مناسب پیار، بات چیت نہ ہونے اور ایک دوسرے کے جذبات کا احترام نہ کرنے کو بھی طلاق کی ایک بڑی وجہ بتایا گیا تھا۔

تاہم طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح پر سعودی حکومت نے 2019 کے اختتام اور 2020 کے آغاز میں دوبارہ سروے کرایا تو معلوم ہوا کہ ملک میں طلاقوں کی شرح مزید بڑھ چکی ہے۔

تازہ سروے کے بعد حکومتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ محض 6 ماہ کے دوران سعودی عرب میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے اور اب ہر گھنٹے 7 طلاقیں ہونے لگی ہیں۔

رپورٹ میں طلاق کی بڑھتی شرح کو معاشرے کے لیے مہلک کینسر قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس عمل سے سب سے زیادہ نقصان متاثرہ مرد و خواتین سمیت ان کے بچوں اور ملکی معیشت کو بھی ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں چوں کہ حکومت شادی کے لیے قرض بھی فراہم کرتی ہے جو تقریباً 24 لاکھ روپے تک ہوتا ہے اور طلاق کی وجہ سے جوڑے سرکاری قرض واپس نہیں کر پاتے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب میں ہر گھنٹے میں 7 طلاقیں

اور اب ملک میں طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح پر سعودی عرب کی نامور خاتون وکیل نسرین الغامدی نے کہا ہے کہ جوڑے کی ازدواجی حیثیت میں شوہر یا بیوی کے اہل خانہ کی مداخلت اب بھی طلاق کا سب سے بڑا سبب ہے۔

خاندان والوں کی جانب سے میاں بیوی کے معاملات میں مداخلت کو روکنا ہوگا، خاتون وکیل—اسکرین شاٹ
خاندان والوں کی جانب سے میاں بیوی کے معاملات میں مداخلت کو روکنا ہوگا، خاتون وکیل—اسکرین شاٹ

نجی ٹی وی چینل ’روتانہ‘ کے پروگرام ’یا ھلا‘ میں بات کرتے ہوئے نسرین الغامدی نے بتایا کہ حیران کن طور پر سعودی عرب کے خاندانی نظام میں موجود نقائص ہی طلاقوں کی بڑی وجہ ہیں۔

خاتون وکیل کا کہنا تھا کہ تین مہینے قبل ربیع الاول میں ہی ملک بھر میں 5 ہزار تک طلاقیں ہوئیں اور ان طلاقوں کی وجوہات انتہائی معمولی نوعیت کی تھیں۔

نسرین الغامدی کے مطابق ربیع الاول میں ملک بھر میں 11 ہزار نکاح رجسٹرڈ ہوئے اور اسی مہینے میں دوسری جانب 5 ہزار طلاقیں ہوئیں۔

یہ ویڈیو بھی دیکھیں: سعودی عرب میں طلاق سے متعلق نیا قانون نافذ

انہوں نے طلاق کے قوانین پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی فیملی قوانین میاں اور بیوی کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ طلاق کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کے بعد بھی 20 دن کے اندر اپنے معاملات درست کر لیں تو ان کی شادی ٹوٹنے سے بچ جاتی ہے۔

خاتون وکیل نے بتایا کہ جوڑے کی جانب سے عدالت میں طلاق کے لیے درخواست دائر کرنے کے 30 دن بعد اگر صلح نہ ہوئی تو عدالت ان کے درمیان طلاق کے حوالے سے فیصلہ سنا دیتی ہے۔

نسرین الغامدی کے مطابق سعودی عرب میں بے جوڑ شادیاں، دلہن اور دلہا کی ایک دوسرے سے عادتوں کے نہ ملنے سمیت خاندانی حسب نسب جیسے معاملات بھی طلاق کا بہت بڑا سبب ہیں تاہم طلاق کا سب سے بڑا سبب میاں اور بیوی میں سے کسی کے بھی اہل خانہ کی دونوں کی نجی و ازدواجی زندگی میں مداخلت ہے۔

انہوں نے سعودی عرب کے شادی شدہ افراد کو تجویز دی کہ وہ شادی کو ختم کرنے جیسے بڑے فیصلے سے قبل ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں اور جذبات میں آکر بہت بڑا اور غلط فیصلہ نہ لیں۔

تبصرے (0) بند ہیں