’مرد، خواتین کے ساتھی ہیں‘

’مرد ہمارے ساتھی ہیں‘

عورت مارچ میں نوجوان لڑکیوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی—فوٹو: عائشہ علی
عورت مارچ میں نوجوان لڑکیوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی—فوٹو: عائشہ علی

تحریر: ساگر سہندڑو

عالمی یوم خواتین کے موقع پر دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواتین اپنے حقوق اور اظہار کے لیے گھروں سے باہر نکلیں اور انہوں نے پر امن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

پاکستان میں ہرسال ہی ’یوم خواتین‘ کے موقع پر ملک کے اہم اور بڑے شہروں میں تقاریب، ریلیوں اور مظاہروں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں مختلف طبقہ ہائے فکر کی خواتین سمیت مرد حضرات کی بھی بہت بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔

اس بار بھی یوم خواتین کے موقع پر پاکستان کے اہم ترین اور بڑے شہروں میں خواتین نے ’عورت مارچ‘ اور ’حیا مارچ‘ نکالے، جن میں ہر طبقہ فکر کی خواتین نے اپنے مذہبی، آئینی و قانونی حقوق کا مطالبہ کیا۔

اگرچہ دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والے ’عورت مارچ‘ میں کچھ بدنظمی ہوئی اور ’عورت مارچ‘ کے شرکا پر پتھراؤ بھی کیا گیا، تاہم ملک کے دیگر شہروں اور مظاہروں سے کسی بھی قسم کی کشیدگی کی خبر سامنے نہیں آئی بلکہ حیران کن طور پر تمام مظاہروں میں مرد حضرات کی بہت بڑی تعداد نے شریک ہوکر خواتین کو پیغام دیا کہ وہ ’حقوق کی جنگ‘ میں اکیلی نہیں۔

پاکستان میں ’عورت مارچ‘ کے بڑے مظاہرے، اسلام آباد، لاہور، کراچی اور سکھر میں ہوئے اور ان ہی شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں بدنظمی اور کشیدگی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا مگر اسلام آباد کے علاوہ دیگر شہروں میں ہونے والے مارچ میں کسی طرح کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا اور اس کا کریڈٹ نہ صرف منتظمین بلکہ پولیس و انتظامیہ کو بھی جاتا ہے، جس نے مارچ کو سخت سیکیورٹی فراہم کر رکھی تھی۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ہر سال کی طرح اس بار بھی تاریخی فیریئر ہال پارک میں ’عورت مارچ‘ کا اہتمام کیا گیا، جس میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات کی بھی بہت بڑی تعداد نے شرکت کرکے دنیا کو پیغام دیا کہ ’خواتین کے حقوق ہی انسانی حقوق ہیں‘۔

کراچی میں عورت مارچ کا آغاز سہ پہر 3 بجے ہوا اور اس کا اختتام رات 8 بجے ہوا اور مارچ میں شریک ہونے کے لیے لوگ دوپہر کے بعد فیریئر ہال آنا شروع ہوگئے تھے۔

’عورت مارچ‘ کے موقع پر انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے سیکیورٹی کے بھی انتہائی اچھے انتظامات کیے گئے تھے اور مرد اہلکاروں سمیت خواتین اہلکاروں کی بھی بہت بڑی تعداد عورت مارچ کی سیکیورٹی کے لیے موجود تھی جب کہ فریئر ہال سے کے قریبی راستوں کو بھی ٹریفک کے لیے محدود کردیا گیا تھا۔

’عورت مارچ‘ کی مرکزی تقریب فریئر ہال پارک میں تھی اور پارک میں داخل ہونے کے لیے 4 واک تھرو گیٹ لگائے گئے تھے اور ہر فرد کو تلاشی اور ضروری معلومات فراہم کرنے کے بعد ہی اندر داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی تھی جب کہ آغاز میں اس بات کا بھی خیال کیا گیا کہ پارک میں صرف ان مرد حضرات کو ہی داخل ہونے کی اجازت دی جائے جن کے ساتھ خواتین ہوں یا پھر ان کا تعلق میڈیا سے ہو لیکن بعد ازاں خواتین کے بغیر اور میڈیا سے تعلق نہ رکھنے والے مرد حضرات کو بھی مارچ میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔

سیکیورٹی کے لیے لیڈی پولیس اہلکار بھی موجود تھیں—فوٹو: ساگر سہندڑو
سیکیورٹی کے لیے لیڈی پولیس اہلکار بھی موجود تھیں—فوٹو: ساگر سہندڑو

مارچ میں واضح طور پر مرد حضرات کی اکثریت کو دیکھا کیا گیا اور انتظامیہ نے بھی مرد حضرات کی شرکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی کاوشوں کو سراہا۔

عورت مارچ کے 70 فیصد شرکا 30 سال کی عمر تک کے افراد تھے اور نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی بہت بڑی تعداد بھی ’خواتین اور بچوں کے حقوق‘ کے بینر لے کر مارچ میں پہنچی تھی، تاہم مارچ میں شامل افراد کے پاس صرف خواتین اور بچوں کے حقوق سے متعلق ہی نہیں بلکہ دیگر سماجی مسائل پر بنے بینرز بھی تھے۔

عورت مارچ میں اگرچہ زیادہ تر بینرز اور نعرے ’پدرشاہانہ‘ نظام کے خلاف تھے تاہم مارچ کے شرکا کی اچھی بات یہ تھی کہ وہ دیگر سماجی مسائل پر بھی بینرز لے کر آئے تھے اور مارچ کے دوران خواتین کے حقوق کے علاوہ دیگر سیاسی و سماجی مسائل پر بھی نعرے بازی کی گئی۔

عورت مارچ میں جہاں ’لاپتہ افراد‘ سے متعلق بینرز دکھائی دیے، وہیں غیر مسلم لڑکیوں اور خاص طور پر ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے بھی کئی افراد بینرز لے کر آئے تھے۔

عورت مارچ میں طلبہ یونین پر عائد پابندیوں سمیت بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگی سمیت انہیں نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے بھی بینرز لائے گئے۔

عورت مارچ میں تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراسانی کا نشانہ بنائے جانے سمیت کم عمری کی شادیوں، لڑکیوں کو تعلیم نہ دلوانے اور انہیں ان کی مرضی سے جائز فیصلے نہ کرنے کے عمل کے خلاف بھی لوگ بینرز اور پلے کارڈ لے کر آئے تھے۔

جہاں خواتین اپنے حقوق سے متعلق بینرز اور پلے کارڈز اٹھاتی دکھائی دیں، وہیں کئی مرد حضرات اور خاص طور پر نوجوان لڑکے بھی خواتین کے حقوق سے متعلق بینرز اور پلے کارڈ لے کر مارچ میں پہنچے اور انہوں نے خواتین سے اظہار یکجہتی کیا۔

مارچ میں گویائی سے محروم افراد کی سہولت کے لیے انٹرپرینر بھی اسٹیج پر موجود تھے—فوٹو: ساگر سہندڑو
مارچ میں گویائی سے محروم افراد کی سہولت کے لیے انٹرپرینر بھی اسٹیج پر موجود تھے—فوٹو: ساگر سہندڑو

عورت مارچ کی تقریب سہ پہر3 بچے فیریئر ہال پارک میں شروع ہوئی اور تقریب میں سماجی مسائل پر مبنی اسٹیج ڈراموں کو پیش کرنے سمیت خواتین کی خودمختاری پر مبنی گانے اور رقص بھی پیش کیا گیا۔

تقریب میں ’عورت مارچ‘ میں مشہور ہونے والے نعرے ’لو بیٹھ گئی صحیح سے‘ جیسے نعرے لکھنے والی صحافی زویا انور سمیت بلوچستان کی لاپتہ افراد کے لیے تحریک چلانے والی خاتون نے بھی خطاب کیا۔

عورت مارچ کی تقریب کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ تقریب کو ایک باحجاب لڑکی نے بھی خطاب کیا جس نے خواتین کی خودمختاری سمیت کراچی میں رہائشی عمارتوں کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں مسمار کرنے اور غریب لوگوں کو بے گھر کرنے جیسے مسئلے پر بات کی۔

تقریب میں کراچی کی باحجاب لڑکی نے رہائشی عمارات کو منہدم کرنے پر بھی خطاب کیا—فوٹو: ساگر سہندڑو
تقریب میں کراچی کی باحجاب لڑکی نے رہائشی عمارات کو منہدم کرنے پر بھی خطاب کیا—فوٹو: ساگر سہندڑو

عورت مارچ کی تقریب سے سندھ کی نوجوان سماجی رہنما تنویر آریجو نے بھی خطاب کیا، جنہوں نے سندھ میں لاپتہ افراد کے معاملے پر بات کرنے سمیت خواتین کے حقوق اور خواتین کی آزادی میں مرد حضرات کے کردار پر بات کی۔

تنویر آریجو نے اپنے خطاب میں عورت مارچ میں مرد حضرات کی بہت بڑی تعداد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پاکستانی مرد اپنی خواتین کی طاقت ہیں اور انہوں نے عورت مارچ میں شامل ہوکر ثابت کردیا کہ وہ اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہیں۔

عورت مارچ کی تقریب سے معروف سماجی رہنما انیسہ ہارون سمیت دیگر خواتین رہنماؤں نے بھی خطاب کیا اور تقریباً شام 6 بجے ’عورت مارچ‘ شروع کردیا گیا۔

’عورت مارچ‘ کا آغاز فریئر ہال کے عبداللہ ہارون روڈ پر واقع گیٹ سے کیا گیا اور اس کا اختتام فریئر ہال کے کینٹ اسٹیشن پر واقع مرکزی گیٹ سے داخل ہوکر واپس فیریئر ہال میں داخل ہوکر کیا گیا۔

مارچ کے آغاز پر ہی درجنوں خواتین و افراد امریکا میں قید پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی و آزادی کے بینرز لے کر پہنچ گئیں اور انہوں نے مارچ شروع ہونے سے قبل ان کے حق میں نعرے بازی کی تاہم سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز اور رپورٹس چلائی گئی ہیں جن میں یہ کہا گیا کہ عورت مارچ کے منتظمین نے لوگوں کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے سلسلے میں نعرے لگانے سے منع کیا اور ان سے پلے کارڈز و بینرز وغیرہ بھی اتروالیے۔

تقریب کو بلوچستان کی لاپتہ افراد تحریک کی کارکن نے بھی خطاب کیا—فوٹو: ساگر سہندڑو
تقریب کو بلوچستان کی لاپتہ افراد تحریک کی کارکن نے بھی خطاب کیا—فوٹو: ساگر سہندڑو

عورت مارچ نے تقریباً 2 کلو میٹر کا چکر ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل کیا اور اس دوران پولیس کی بھاری نفری مارچ کے شرکا کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے تھی اور اس روڈ پر ٹریفک کو عارضی طور پر بند کردیا گیا تھا۔

عورت مارچ میں مرد حضرات کی شرکت اور اس میں مختلف طرح کے بینرز کے معاملے پر ڈان سے بات کرتے ہوئے معروف حقوق نسواں کی رہنما و کلاسیکل ڈانسر شیما کرمانی نے کہا کہ ’وہ مرد حضرات کو عورتوں کا ساتھی سمجھتی ہیں‘۔

شیما کرمانی کا کہنا تھا کہ ’مرد خواتین کے ساتھی ہیں اور انہوں نے مرد حضرات کو پیغام دیا کہ ’وہ خواتین کے ساتھ پیار و محبت سے رہیں تاکہ گھروں میں محبت و امن رہے‘۔

شیما کرمانی کا کہنا تھا کہ خواتین نے پرامن ’عورت مارچ‘ کیا جس میں انہوں نے اپنے آئینی و قانونی حقوق کا مطالبہ کیا۔

شرکا نے سندھ میں جبری مذہب تبدیلی کے خلاف بھی بینر اٹھا رکھے تھے—فوٹو: ساگر سہندڑو
شرکا نے سندھ میں جبری مذہب تبدیلی کے خلاف بھی بینر اٹھا رکھے تھے—فوٹو: ساگر سہندڑو

انہوں نے کہا کہ خواتین کا مقصد ایک ایسے پرامن اور محبت بھرے معاشرے کا قیام ہے جس میں خواتین کو بحیثیت انسان پرسکون اور خود مختار زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ’عورت مارچ‘ کے بینرز پر تنقید کو بلاجواز قرار دیا اور کہا کہ ’عورت مارچ‘ کے بینرز ہمیشہ کی طرح اس بار بھی لاجواب ہیں اور وہ بطور منتظم ہر بینر کو سپورٹ کرتی ہیں۔

عورت مارچ میں جسمانی طور پر معذور مرد و خواتین بھی شامل ہوئے—فوٹو: ساگر سہندڑو
عورت مارچ میں جسمانی طور پر معذور مرد و خواتین بھی شامل ہوئے—فوٹو: ساگر سہندڑو

انہوں نے عورت مارچ میں مرد حضرات کی بہت بڑی تعداد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مرد خواتین کے ساتھی ہیں‘۔

کراچی کے عورت مارچ میں سندھ کے پسماندہ ترین علاقے تھرپارکر سے آنے والی ہندو سماجی رہنما پشپا کماری نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ دیہی خواتین و ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی‘ کو ختم کرنے کے لیے مارچ کا حصہ بنی ہیں۔

پشپا کماری نے ’میرا جسم، میری مرضی‘ کے نعرے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس مارچ کا مطلب بالکل مذکورہ نعرہ نہیں بلکہ عورت مارچ کا مقصد خواتین کی جانب سے اپنے حقوق کی جنگ لڑنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’قوموں کی عزت صرف خواتین سے ہی ہے‘ اور وہ اس مارچ میں اپنی بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کے حقوق کی جنگ لڑنے آئی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ دیہی خواتین کو مرد حضرات کے مساوی حقوق دیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میرا جسم، میری مرضی‘ جیسے سلوگن نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ہمارے سلوگن ’مساوی اجرت’اور ’مساوی حقوق‘ ہونے چاہئیں۔

پشپا کماری کے مطابق عورتوں کو بھی مرد حضرات کی طرح سڑکوں پر ٹھیلا لگا کر روزگار کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں جب کہ دیہی خواتین کو بھی مرد حضرات کی طرح یکساں کام اور اجرت ملنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آئین و قانون میں ہر شہری کے یکساں حقوق ہیں اور کسی کے مذہب پر کسی دوسرے کا اختیار نہیں، اس لیے سندھ میں ہندو کم عمر لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی بھی ختم ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنی بیٹیوں اور دیگر لڑکیوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے تھرپارکر سے کراچی مارچ میں شرکت کرنے آئی ہیں۔