22-10-13-3 divorce cases are recorded every hour in 670
سعودی خواتین۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

ریاض، سعودی عرب: سعودی اخبار الاقتصادیہ کے ریسرچ کے شعبے نے ایک جائزہ شایع کیا ہے، جس کے مطابق سعودی عرب میں ایک دن میں تقریباً بیاسی جوڑے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور ہر گھنٹے میں تین۔ یہ اعدادوشمار 2012ء کے ہیں، جس کے دوران تیس ہزار مردوں نے اپنی بیویوں کو طلاق دے کر ان سے علیحدگی اختیار کرلی۔ عرب نیوز نے الاقتصادیہ کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ سعودی عرب میں طلاق کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

سلطنت سعودی عربیہ میں اس مطالعے کی رو سے پندرہ برس سے زیادہ عمر کے ہر ایک ہزار مردوں میں دو اعشاریہ پانچ کی شرح سے طلاق کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔خلیج کے عرب ممالک میں سعودی عرب اس حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے، طلاق کے دو اعشاریہ سات کیسز فی ایک ہزار مردوں کی شرح کے حساب سے بحرین پہلے نمبر پر ہے۔

اسی طرح کے ایک جائزے میں 2012ء کے دوران طلاق کے کیسز کا موازنہ 2010ء کے اعدادوشمار سے کیا گیا ہے، جب طلاق کے مقدمات کا تخمینہ ایک دن میں 75 کیسز تھا۔

سعودی وزارت انصاف کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوّے فیصد طلاق کے کیسز ایسے سعودی مردوں کے ہوتے ہیں، جنہوں نے سعودی خواتین سے شادیاں کی ہوتی ہیں، اور وہ مزید شادی کے لیے انہیں طلاق دیتے ہیں۔ شرعی طور پر چار سے زیادہ شادی کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے سعودی مرد نئی شادیوں کے لیے پچھلی بیویوں کو طلاق دیتے جاتے ہیں۔

ایسے افراد جو سعودی شہری نہیں ہیں، اور ان کی شادی بھی کسی سعودی خاتون سے نہیں ہوئی ہے، ان کے اندر طلاق کی شرح بہت کم ہے، ان میں طلاق کے کل کیسز ایک سال میں دو ہزار ایک سو چوہتر تھی۔

تیسرے درجے پر اس زمرے کے لوگ آتے ہیں، جن میں سعودی مردوں نے غیر سعودی خواتین کے ساتھ شادیاں کی ہوں، ان میں طلاق کی شرح مزید کم ہے اور ایک سال میں کُل پانچ سو پچھتر کیسز سامنے آئے۔

خلیج کے عرب ممالک میں سعودی عرب بحرین کے بعد طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے، اور عمان پندرہ برس سے زیادہ عمر کے ہر ایک ہزار مردوں میں طلاق کے ایک اعشاریہ نو کیسز کے ساتھ تیسرے درجے پر ہے۔

قطر، خلیج کے عرب ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے، جہاں طلاق کی شرح ہر ایک ہزار مردوں میں ایک اعشاریہ دو ہے۔

دوسری جانب العربیہ ڈاٹ نیٹ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں سرکاری طور پر  جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق طلاق کے رحجان میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ سلطنت سعودیہ العربیہ  میں ہر نصف گھنٹے کے دوران ایک طلاق کے تناسب سے یہ رحجان 35 فی صد تک پہنچ چکا ہے۔

سعودی معاشرے میں طلاق کے بڑھتے رحجان پر سماجی ماہرین اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے گہری تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے شہر تبوک میں کورٹس کے چیئرمین الشیخ سعود الیوسف نے طلاق کے بڑھتے رحجان کو سعودی سماج کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ کچھ عرصے میں سعودی عرب میں طلاق کا رحجان میں 40 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔

سعودی عرب کے ایک سماجی رہنماء اور طلاق کے اسباب پر گہری نظر رکھنے والے محمد العتیق نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”سرکاری سطح پر طلاق کے جاری کردہ اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ رجحان ملک کے سماجی پہلو کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک طرف سعودی عرب میں شادیوں کے رحجان میں کمی ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی طلاق کے واقعات میں اضافہ ہمارے معاشرے کے لیے کوئی حوصلہ افزا خبر نہیں۔“

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں طلاق کی کئی وجووہات ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بعض خاندان اپنے داماد پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ شادی سے پہلے وہ اپنی بیٹیوں کی صحیح کفالت بھی نہیں کرتے اور بیاہنے کے بعد یہ توقع رکھتے ہیں کہ داماد ان کی خدمت بھی کرتا رہے گا، چنانچہ شوہروں پر سسرال کا یہ اضافی بوجھ طلاق کا سبب بن جاتا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ میں سعودی معاشرے میں طلاق کے تیزی سے فروغ پذیر رحجان کے اسباب اور عوامل کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے، جس کے مطابق سعودی عرب میں ”نکاح المسیار“ یعنی عارضی نکاح اور لڑکیوں کی مائیں اکثر طلاقوں کا موجب بنتی ہیں۔

خیال رہے کہ مسیار کے طریقے  میں نکاح کے وقت بیوی شوہر کے ذمہ نان نفقے اور دیگر حقوق کے دستبرداری کا اعلان کرتی ہے اور اس کے بدلے میں شوہر طلاق کا حق بیوی کو دینے پرراضی ہو جاتا ہے۔ یوں شادی کے بعد کسی بھی تلخی کی صورت میں لڑکی شوہر کو چھوڑ چلی جاتی ہے، جس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

سعودی عرب میں خاندانی امور کے ماہراور خاندانی قانونی مشیر شیخ محمد عثمان الفلاج بھی طلاق کی ایک بڑی وجہ ”نکاح المسیار“ کو قرار دیتے ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ اس طرح کی شادیوں میں خواتین جب چاہتی ہیں طلاق کا حق استعمال کر لیتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Iram Oct 22, 2013 10:16am
Ok, so if the woman initiates it, it's the woman's fault. And when the man initiates it, it's still the woman's fault. How convenient. So even though a majority of divorces are initiated by men who want to go on to the next woman (because, you know, four women are just not enough), the fault always lies with the woman or her family. Got it, SA. Nice little piece of logic there from the Saudis.