برازیل: لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے خلاف مظاہروں میں صدر کی شرکت

اپ ڈیٹ 20 اپريل 2020
برازیلی صدر نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر مظاہرے میں شرکت کی—فوٹو: اے ایف پی
برازیلی صدر نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر مظاہرے میں شرکت کی—فوٹو: اے ایف پی

کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے خلاف اگرچہ امریکا کی متعدد ریاستوں میں بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں تاہم جنوبی امریکا کے ملک برازیل کے صدر بھی اپنے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے خلاف سڑکوں پر آ گئے۔

جی ہاں، برازیل کے صدر جو ریاست کے تمام حکومتی معاملات کے سربراہ ہیں وہ بھی اپنے ملک میں نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن اور لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

برازیل کی تقریبا تمام 26 ہی ریاستوں میں کورونا سے بچاؤ کے لیے جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہے اور حکومتوں نے لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔

برازیل آبادی اور معیشت کے حوالے سے دنیا کے اہم ترین ممالک میں شامل ہوتا ہے اور وہاں پر گزشتہ ماہ مارچ کے آغاز سے ہی کورونا جیسی وبا سے بچنے کے لیے تفریحی و عوامی مقامات کو بھی بند کردیا گیا ہے۔

ریاستی حکومتوں کی جانب سے لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کے احکامات جاری کرنے کے خلاف برازیل کے صدر جیئر بولسونارو پہلے دن سے ہی ناراض تھے اور وہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ کورونا وائرس سے ڈر کر معمولات زندگی کو مفلوج نہیں کیا جا سکتا۔

صدر جیئر بولسونارو نے گزشتہ ماہ 25 مارچ کو کہا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باوجود برازیل کے عوام اور مقامی حکومتوں کو معمولات زندگی بحال رکھنے کی ضرورت ہے، وبا کے ڈر کی وجہ سے نوکریاں نہیں چھوڑی جانی چاہیئیں۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ کورونا وائرس برازیل میں آ چکا ہے اور وہ پھیلے گا اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم اس کا مقابلہ بھی کریں گے اور اس سے بچنے کے لیے کوششیں بھی کر رہے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم لاک ڈاؤن کردیں اور کاروبار کو ختم کردیں۔

برازیلی صدر ذاتی طور پر لاک ڈاؤن کے خلاف تھے تاہم وہاں کے آئین کے مطابق ریاستی حکومتیں اور ریاستی گورنرز اپنی ریاستوں میں کسی طرح کے اقدامات اٹھانے کے لیے خود مختار ہوتے ہیں، اس لیے تقریبا تمام ہی ریاستوں نے کورونا سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا سے ڈرنا نہیں ہے،معمولات زندگی بحال رکھیں،برازیلی صدر

تاہم طویل عرصے تک لاک ڈاؤن کو نافذ رکھے جانے اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کے ریاستی حکومتوں کے احکامات کے خلاف لوگوں نے مظاہرے کرنا شروع کردیے ہیں اور ایسے مظاہروں میں عام طور پر 500 سے زائد افراد ایک ساتھ شریک ہو رہے ہیں۔

مظاہرے میں 600 تک افراد شامل ہوئے—فوٹو: رائٹرز
مظاہرے میں 600 تک افراد شامل ہوئے—فوٹو: رائٹرز

عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق برازیل کے دارالحکومت براسیلیا میں فوج کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے ہونے والے تقریبا 600 افراد کے مظاہرے میں صدر جیئر بولسونارو نے بھی شرکت کی اور وہ بھی دیگر مظاہرین کی طرح حفاظتی انتظامات کے بغیر ہی مظاہرے میں شریک ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق فوجی ہیڈکوارٹر کے سامنے مظاہرے کرنے والے افراد کا مطالبہ تھا کہ فوج آگے بڑھ کر پارلیمینٹ کو تحلیل کرنے سمیت سپریم کورٹ کو بھی محدود کردے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کے احکامات دینے کے خلاف مظاہرے کرنے والے افراد نے ہاتھوں میں فوج اور جیئر بولسونارو کی حمایت میں پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔

مظاہرین کے ہاتھوں میں جو پلے کارڈز تھے ان میں فوج کو ترغیب دی گئی تھی کہ وہ صدر جیئر بولسونارو کے ساتھ مل کر برازیل کی کانگریس کو تحلیل کرنے سمیت سپریم کورٹ کے اختیارات بھی منجمند کردیں۔

لاک ڈاؤن کے خلاف ہونے والے مذکورہ مظاہرے میں تقریبا 600 افراد نے شرکت کی جو فیس ماسک اور کسی طرح کے حفاظتی سامان اور تدابیر کے بغیر ہی مظاہرے میں شریک ہوئے۔

مذکورہ مظاہرے میں صدر جیئر بولسونارو بھی حفاظتی اقدامات کیے بغیر ہی شریک ہوئے اور انہوں نے مظاہرین سے مختصر خطاب بھی کیا۔

جیئر بولسونارو کا کہنا تھا کہ وہ مذکورہ مظاہرے میں اس لیے شریک ہوئے ہیں کیوں کہ وہ ان مظاہرین پر یقین کرتے ہیں اور مظاہرین برازیل پر یقین کرتے ہیں۔

اپنے خطاب میں اگرچہ انہوں نے مظاہرین کے مطالبے پر کوئی رد عمل نہیں دیا تاہم انہوں نے مظاہرین کو کہا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے ضرور لڑیں اور اپنے صدر پر یقین رکھیں اور اس کا ساتھ دیں۔

لاک ڈاؤن کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں صدر کی شرکت پر برازیل کے سیاسی، سماجی و قانونی ماہرین حیران ہیں اور ان کا خیال ہے کہ 19 اپریل کو جیئر بولسونارو نے مظاہرے میں شرکت کرکے اپنی حدود پار کیں۔

برازیل کے سیاسی، سماجی و قانونی ماہرین صدر کی مظاہرے میں شرکت کو ایک بار پھر ملک میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کی جانب گامزن ہونے کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور وہ حیران ہیں کہ ملک سے فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے 30 سال بعد پھر سے ملک میں فوج سے پارلیمینٹ تحلیل کرنے اور عدالتوں کے اختیارات محدود کرنے کے مطالبے کیوں کیے جا رہے ہیں۔

خیال رہے کہ برازیل میں 20 اپریل کی دوپہر تک کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 39 ہزار کے قریب جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 2500 کے قریب جا پہنچی تھی، تاہم اس باوجود وہاں پر لاک ڈاؤن کو ختم کرنے اور خصوصی طور پر لوگوں کو کام پر جانے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں