اسلام آباد ہائیکورٹ کی نظام انصاف پر شدید تنقید

اپ ڈیٹ 05 مئ 2020
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بات قتل کے 7 مختلف مقدمات میں ملزمان کو بری کرتے ہوئے کہی—فائل فوٹو: اےا یف پی
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بات قتل کے 7 مختلف مقدمات میں ملزمان کو بری کرتے ہوئے کہی—فائل فوٹو: اےا یف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے موجودہ نظام انصاف ’جرائم کو روکنے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی میں ناکام‘ ہوگیا ہے کیوں کہ یہ نظام ’ مسلسل انصاف کے قتال اور بظاہر تباہی کے دہانے پر ہے‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بات قتل کے 7 مختلف مقدمات میں ملزمان کو بری کرتے ہوئے کہی، جس میں سے اکثر کیسز میں ملزمان 10 سال سے جیلوں میں قید تھے۔

اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ’جانے سے قبل ہم اپنی اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ دارالحکومت اسلام آباد میں نظام انصاف کی خطرناک اور پست صورتحال کے حوالے سے اپنے مشاہدات ریکارڈ کریں، عدالت میں موجود یہ مقدمہ صرف ایک جھلک ہے کیوں کہ زیادہ تر سنگین جرائم کے مقدمات میں سزا نہیں ہوتی‘۔

یہ بھی پڑھیں: عدالتیں حکومت کو میڈیا پر پابندی لگانے کی اجازت نہیں دیں گی، اسلام آباد ہائی کورٹ

عدالت کا کہنا تھا کہ ’نظام انصاف کا مقصد مجرم کو سزا دینا ہے تاکہ جرم کو مؤثر طریقے سے قابو کیا جاسکے‘ لیکن ’ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ موجودہ صورتحال میں (نظام انصاف پر) یہ یقین مکمل طورہ پر گمراہ ہے‘۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ 'عدالتی شاخ کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کرنے کے باجود یہ دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز مثلاً پولیس، جیل حکام اور استغاثہ کی دیانت اور پیشہ ورانہ معیار پر منحصر ہے‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’چاہے بدعنوانی کی وجہ سے ہو، لاپروائی یا سراسر نااہلی اور پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان ہو، نظام انصاف یقینی طور پر اپنا مقصد پورا نہیں کررہا اور اس کے بجائے انصاف کا مسلسل قتل اور بظاہر ناانصافی کا ذریعہ بن چکا ہے‘۔

عدالت نے کہا کہ ’اس کیس میں نااہلی، بہیمانہ قتل کی تفتیش کے استعمال ہونے والے فرسودہ اور متروک طریقوں، بادی النظر میں صداقت اور پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان ریکارڈ کی سطح پر تیر رہا ہے‘۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا نیب پر ججز کو بلیک میل کرنے کا الزام

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ واحد کیس نہیں بلکہ عمومی طور یہ زیادہ تر مقدمات میں دیکھا گیا ہے اور مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ تفتیشی افسران یا تو بظاہر مطمئن، مصالحت پسند یا مکمل طور پر نااہل ہوتے ہیں‘۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’سر بمہر نمونوں کو منتقل کرنا اور ان کے کیمیائی تجزیے کے لیے سرکاری لیبارٹری کو فیس کی ادائیگی کا انتظام کرنا تو ایک طرف، کم آمدنی والے تفتیشی افسر کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ جب جرم کی اطلاع آئے تو وہ جائے وقوع پر جاسکے، یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ چونکہ تفتیش کے لیے اطمینان بخش سرکاری وسائل دستیاب نہیں ہوتے اس لیے فریقین میں سے ہمیشہ متاثرین سے رقم کا تقاضہ کیا جاتا ہے‘۔

مزید یہ کہ تفتیشی افسران تربیت یافتہ نہیں ہوتے نہ ہی انہیں اس مقصد کے لیے منتخب یا تعینات کیا جاتا ہے، کوئی آزاد، علیحدہ تفتیشی شاخ بھی موجود نہیں اور نہ ہی یہ ترجیح معلوم ہوتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ریاست کے تمام ستون نظام کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’مختصراً یہ کہ نظام انصاف کی موجودہ صورتحال اپنے مقصد کو پورا نہیں کررہی اور تباہی کے دہانے پر پر ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: ’نظام انصاف کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ ’تمام شاخیں مثلاً عدلیہ اور مقننہ موجودہ حالات کی ذمہ دار ہیں جو یقیناً بدعنوانی اور انصاف کے مسلسل سنگین قتال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’یہ واضح حقیقت ہے کہ ریاست گزشتہ 7 دہائیوں سے نظام حکومت کے سب سے اہم حصے کو نظر انداز کرتی آئی ہے کیوں کہ واضح طور پر نظام انصاف کبھی ترجیح نہیں رہا'۔

چیف جسٹس اطہر من االلہ نے کہا کہ ’ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ موجودہ نظام، انصاف کے قتل سے تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا، یہ مؤثر طریقے سے جرائم کو روکنے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں ناکام اور طاقتوروں کی جانب سے غریبوں کے خلاف استحصال کے حوالے سے کمزور ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں