خیبرپختونخوا: اراکین اسمبلی کی مداخلت، میرٹ پر تعیناتیوں میں رکاوٹ

اپ ڈیٹ 04 مئ 2020
اس طرح کی تعیناتیوں اور تبادلوں نے محکمہ تعلیم کے حکام اور اساتذہ میں تشویش پیدا کردی ہے—فائل فوٹو: اے پی
اس طرح کی تعیناتیوں اور تبادلوں نے محکمہ تعلیم کے حکام اور اساتذہ میں تشویش پیدا کردی ہے—فائل فوٹو: اے پی

پشاور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین اسمبلی کی جانب سے ایلیمنٹری اور سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں غیر معمولی مداخلت، میرٹ پر اہل افسران کے تقرر میں رکاوٹ ہے۔

حکام کے مطابق اسکولوں اور تربیتی مراکز، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کے 7 بورڈز میں ڈسٹرک ایجوکیشن افسران کے عہدے اور اہم آسامیاں خالی ہیں جو عموماً محکمے کی جانب سے تبادلوں کے بجائے اراکین اسمبلی کی سفارش سے پُر کی جاتی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق محکمہ تعلیم کے عہدیداران نے بتایا کہ اراکین اسمبلی کو محکمہ تعلیم کے صوبائی سیکریٹریٹ آتے جاتے دیکھا جاسکتا ہے تا کہ اپنے لوگوں کی من پسند عہدوں پر تعیناتی کا انتظام کرسکیں۔

اس سلسلے میں حالیہ مثال یونیورسٹی آف مالاکنڈ چکدرہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن، محمد نسیم خان کی بحیثیت کنٹرولر آف پشاور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کا تقرر ہے، نسیم خان پی ٹی آئی رکن صوبائی اسمبلی محمد اعظم خان کے بیٹے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا: واؤچر اسکیم کے تحت پڑھنے والے بچوں کی آدھی تعداد نے تعلیم چھوڑ دی

ذرائع نے بتایا کہ صوبائی اسٹیبلشمنٹ، ایلیمنٹری اور سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے نسیم خان کی تعیناتی کی مخالفت کی تھی کیوں کہ نہ تو وہ ماہر تعلیم ہیں نہ ہی ان کا امتحانات کا کوئی تجربہ ہے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ نسیم خان یونیورسٹی آف مالاکنڈ میں ایک انتظامی افسر تھے اور ان کا تعلیم کے معاملات کا کوئی تجربہ نہیں جبکہ امتحانات کا کنٹرولر ایک اچھے ماہر تعلیم کو ہونا چاہیے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کنٹرولر میٹرک اور انٹر کے تمام امتحانات کے انعقاد کا ذمہ دار ہوتا ہے جس میں پیپر سیٹنگ، چیکنگ، امتحانی ہال میں ڈپٹی انویجلیٹرز کی تعیناتی اور ایجوکیشن بورڈ کے خفیہ شعبے کا کنٹرول شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کنٹرولر کے پاس نصاب، طلبہ کی تعلیم کے نتائج اور ٹیسٹ وغیرہ کی کافی معلومات ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا: اسکولوں میں بہتر نظام تعلیم کیلئے نیا منصوبہ

حکام کا کہنا تھا کہ ایجوکیشن اور اسٹیبلشمنٹ ڈپارٹمنٹ نے نسیم خان کی بحیثیت کنٹرولر تعیناتی کی مخالفت کی تھی لیکن ان کے والد رکن صوبائی اسمبلی محمد اعظم اور دیگر اراکین اسمبلی نے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیر تعلیم پر دباؤ ڈالا جس کے نتیجے میں ان کا تقرر ہوگیا۔

اسی طرح ایک دوسرے معاملے میں وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے انسداد بدعنوانی اسٹیبلشمنٹ شفیع اللہ کی مداخلت سامنے آئی اور محکمہ تعلیم کو ان کی سفارش کے مطابق معاشیات کی ایک خاتون استاد کے تبادلے پر مجبور کیا گیا جو مشکل سے کسی عہدے پر 3 ماہ ٹک پاتی ہیں۔

تبادلے کے بعد محکمہ تعلیم نے انہیں ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے اختیار میں دے دیا جس نے انہیں معاشیات کی کوئی آسامی خالی نہ ہونے پر لائیبریرین مقرر کردیا۔

حکام کا کہنا تھا کہ اس طرح کی تعیناتیوں اور تبادلوں نے محکمہ تعلیم کے حکام اور اساتذہ میں تشویش پیدا کردی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تعلیمی معیار میں پنجاب تیسرے،خیبرپختونخوا پانچویں نمبر پر ہے،رپورٹ

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ اراکین اسمبلی کا اثر رسوخ بہت زیادہ ہے حتیٰ کہ محکمہ تعلیم کسی بھی ضلعی ایجوکیشن افسر کو اس ضلع کے رکن اسمبلی کی رضامندی کے بغیر تعینات نہیں کرسکتا۔

اس سلسلے میں جب ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر اکبر ایوب خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اراکین اسمبلی کی مداخلت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم عوامی نمائندے ہیں اور ہمیں محکمہ تعلیم سے رابطے میں رہنا پڑتا ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ووٹرز کو محکمہ تعلیم سے بہت سے مسائل ہوتے ہیں اس لیے اراکین اسمبلی کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan May 05, 2020 04:38am
میرٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے باقی عوامی نمائندوں کو ہر معاملے میں شریک کرنا چاہئے کیونکہ یہ انکا حق ہے ہر ضلعی اور تحصیل افسران کو عوامی نمائندے کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہئے کیونکہ عوامی نمائندہ عوام کا منتخب شدہ ہوتا ہے اور انکو اپنے حلقے کے عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے سرکاری افسران کو کهلا چهوڑ دیا گیا تو وہ سب کچھ گڑ بڑ کردیگا نئے ملازمت کے حوالے سے میرٹ لازمی ہے دیگر کام پوسٹنگ ٹرانسفر میں عوامی نمائندے کی رضامندی شامل ہونی چاہئے