صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 5 سے 8 مئی تک شدید گرمی اور ہیٹ ویو کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے اور 2 دن سے شہری شدید گرمی بھی محسوس کررہے ہیں جبکہ سمندری ہوا کی رفتار کم ہونے سے گرم ہوا محسوس کی جارہی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہونے کی وجہ سے گرمی کی شدت زیادہ محسوس ہوتی ہے تاہم شہریوں کو اس دوران دھوپ میں کم سے کم نکلنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

کراچی میں گزشتہ چند برسوں سے ہر سال ہی ہیٹ ویو کا مسئلہ سامنے آرہا ہے اور 2015 میں سیکڑوں افراد اس کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے، مگر اس سال کورونا وائرس کی وبا بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

پاکستان میں اس حوالے سے سائنسدانوں کی رائے سامنے نہیں آئی مگر اس وائرس کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ملک امریکا کی ریاست کیلیفورنیا کے طبی حکام نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ موسم گرما کے دوران ہیٹ ویوز سے گھروں میں رہنے والے افراد کے لیے خطرہ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔

لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹ میں سدرن کیلیفورنیا کی ایک تحقیق کا حوالہ دیا گیا جس کے مطابق لاس اینجلس کے ایک تہائی گھروں میں ائیرکنڈیشنر موجود نہیں اور کورونا وائرس کی وبا کے دوران گھروں تک محدود رہنے سے ان کے لیے خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر ایرک کنیک برگ نے لاس اینجلس ٹائمز کو بتایا کہ لاکھوں بزرگ امریکی شہریوں کو اس وائرس کی وبا کے نتیجے میں چار دیواری کے اندر رہنے کی ضرورت ہوگی جبکہ سماجی طور پر کٹ جانا وہ بھی انتہائی شدید گرم موسم میں، جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

کورونا وائرس کسی بھی عمر کے افراد کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے مگر معمر افراد کے لیے وہ بہت زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔

امریکا بھر کے طبی ماہرین کی جانب سے اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے سخت سماجی دوری کے اقدامات پر زور دیا جارہا ہے۔

اسی طرح گھروں تک محدود لاکھوں ملازمت پیشہ افراد بھی اپنی مالی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ائیرکنڈیشنر کو استعمال کرنے سے ہچکچائیں گے۔

درحقیقت اس طرح کا امکان صرف کیلیفورنیا تک محدود نہیں کراچی جیسے ایسے تمام شہر جہاں ہر سال ہیٹ ویوز کا مسئلہ نظر آتا ہے، وہاں غریب آبادیوں میں یہ بہت زیادہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

اور یقیناً صرف ایک لہر تک ہی معاملہ محدود نہیں ہوگا، آنے والے ہفتوں میں کراچی میں مزید ہیٹ ویوز کا امکان بھی موجود ہے۔

درحقیقت اس وائرس کی وبا سے پہلے ہی گرم موسم میں ہیٹ ویوز کے مسئلے سے بچاؤ کے لیے کراچی یا دیگر شہروں میں متعدد اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ ہلاکتوں سے بچا جاسکے۔

یہ مسئلہ بزرگ افراد اور غریب آبادیوں کے رہائشیوں کے لیے زیادہ تشویشناک ثابت ہوسکتا ہے۔

شکاگو ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے کیلیفورنیا انوائرمنٹل ہیلتھ ہزارڈز ایسسمنٹ کی عہدیدار روپا باسو نے کہا کہ وائرس کے اثرات واضح ہیں، خاص طور پر ان حصوں میں یہ افراد کو زیادہ شرح سے ہلاک کررہا ہے جو پہلے ہی شدید گرمی کا بھی سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں، یعنی بزرگ افراد اور مختلف امراض کے شکار لوگ، مگر اس سال یہ اثر دگنا ہوسکتا ہے۔

اس روزنامے سے بات کرتے ہوئے نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر ایرک کنیک برگ نے کہا 'یہ معاملہ کافی پیچیدہ ہے، طبی حکام کو وائرس کے خطرات اور زیادہ خطرے کی زد میں دوچار افراد کے حوالے سے دیانتدار ہونا ہوگا'۔

پاکستان کی طرح امریکا میں بھی کروڑوں افراد گھروں تک محدود ہیں اور صرف راشن لینے کے لیے باہر جانے کی اجازت ملتی ہے اور یہ وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ضروری بھی ہے۔

دنیا بھر میں حکام پہلے ہی انتباہ کرچکے ہیں کہ اس وائرس کے علاج یا ویکسین سے قبل سماجی دوری کے بیشتر اقدامات کئی ماہ تک برقرار رہ سکتے ہیں۔

سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کے انجنیئرنگ پروفیسر جارج بین وایسی اور ان کی ٹیم کی حالیہ تحقیق میں عندیہ دیا گیا ہے کہ ہیٹ ویوز سے وہ آبادی زیادہ متاثر ہوسکتی ہیں جہاں ائیرکنڈیشنر کی موجودگی نہ ہونے کے برابر جبکہ غربت کی شرح بہت زیادہ ہے۔

ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے موسمیات کے ماہر ڈیوڈ ہونڈیولا کے مطابق محققین کو اس حوالے سے ایک اور عنصر پر توجہ دینی چاہیے اور وہ کسی لت کا شکار ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی چیز کی لت کے شکار افراد میں بہت زیادہ گرمی کا شکار ہوکر مرنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور کورونا وائرس کے دوران جب متعدد کاروبار بند اور ذہنی بے چینی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، تو کسی لت کے شکار افراد میں اس چیز کا استعمال بڑھ رہا ہے جو گرمی پر قابو پانے میں ان کی صلاحیت کو متاثر کرسکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں