نیا کورونا وائرس پھیپھڑوں کے ساتھ آنتوں کو بھی نشانہ بناسکتا ہے، تحقیق

06 مئ 2020
یہ بات نیدرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات نیدرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

نئے کورونا وائرس سے پھیپھڑے تو متاثر ہوتے ہی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ جراثیم آنتوں کے خلیات میں بھی اپنی نقول بناتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کووڈ 19 کے کچھ مریضوں کو معدے کے امراض کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

یہ بات نیدرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع تحقیق کے مطابق نیا نوول کورونا وائرس انسانی معدے پر حملہ آور ہوکر اپنی نقول بناسکتا ہے کیونکہ وہ وہ انزائمے جو یہ وائرس خلیات میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتا ہے، جسم کے اس حصے میں بھی پائے جاتے ہیں۔

ایس 2 نامی یہ انزائمے نظام تنفس میں بھی پائے جاتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے محققین نے اس وائرس اور انسانی آنتوں کے خلیات کو لیا اور لیبارٹری میں ان کو آپس میں ملادیا۔

24 گھنٹے بعد وائرس نے کچھ خلیات پر حملہ کردیا اور 60 گھنٹے بعد متاثرہ خلیات کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہوگیا۔

اراسموس ایم سی یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ نتائج سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ نیا کوورنا وائرس غذائی نالی کے خلیات میں بھی اپنی تعداد کو بڑھاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم ہم ابھی یہ نہیں جان سکے کہ کووڈ 19 کے مریضوں کی آنتوں میں یہ وائرس آگے دیگر افراد میں منتقلی میں کوئی کردار ادا کرتا ہے یا نہیں، اس امکان کے بارے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ویسے یہ پہلا موقع نہیں جب سائنسدانوں نے نئے کورونا وائرس اور نظام ہاضمہ کے درمیان تعلق کو دریافت کیا ہو۔

گزشتہ ماہ جریدے دی امریکن جرنل آف گیسٹروانٹرالوجی میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے کچھ مریضوں کو نظام ہاضمہ کے مسائل خصوصاً ہیضے کا سامنا پہلی علامت کے طور پر ہوتا ہے۔

حقیق کے مطابق ایسے مریض جن میں ہیضہ پہلی علامت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے، ان میں بیماری کی شدت معتدل تھی، نظام تنفس کی علامات بعد میں طاہر ہوئیں بلکہ کچھ کیسز میں تو ایسی علامات نظر ہی نہیں آئیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ دریافت اس لیے اہم ہے کیونکہ کووڈ 19 کی عام علامات جیسے بخار، کھانسی اور سانس لینے میں مشکل کے بغیر اکثر ایسے کیسز کی تشخیص نہ ہونے کا امکان ہوتا ہے اور یہ مریض بیماری کو دیگر افراد تک پھیلا سکتے ہیں۔

مگر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نظام ہاضمہ کے امراض بہت عام ہیں اور ضروری نہیں کہ ان کے شکار افراد کووڈ 19 ہو، مگر اچانک ہیضے کی صورت میں وبائی مرض کے بارے میں سوچنا ضرور چاہیے، کیونکہ جلد تشخیص نہ ہونے پر یہ مریض صحت مند افراد کو اس وائرس کا شکار بناسکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اہم پیغام یہ ہے کہ کووڈ 19 صرف کھانسی یا نمونیا کا نام نہیں، درحقیقت اس کے بارے میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ معلوم ہورہا ہے۔

اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔

اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

اسی طرح خون میں آکسیجن کی سطح میں بہت زیادہ کمی کے باوجود اس کے آثار مریضوں پر ظاہر نہ ہونے کے عمل نے بھی ماہرین کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں