کورونا وائرس سے متعلق تمام پالیسیز مشاورت کے ساتھ تشکیل دی جارہی ہیں، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 12 مئ 2020
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا سینیٹ میں اظہارِ خیال—تصویر: ڈان نیوز
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا سینیٹ میں اظہارِ خیال—تصویر: ڈان نیوز

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دنیا سمجھ رہی کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کورونا وائرس سب سے بڑا بحران ہے جس میں بڑی بڑی معیشتیں لڑکھڑا گئی ہیں اور ایسے ہی حالات میں پاکستان کو بھی وبا کا مقابلہ کرنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم بحیثیت قوم اسے شکست دینے میں کامیاب رہے ہیں۔

ملک میں کورونا وائرس سے متعلق صورتحال پر بلائے گئے سینیٹ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پالیسی کے لحاظ سے کوئی الجھن نہیں بلکہ پالیسی واضح ہے اور حکمت عملی مرتب کی جاچکی ہے جسے مرتب کرنے میں خود ان کا ہاتھ ہے، جتنی پالیسیز اس وقت نافذ ہیں اس میں پیپلز پارٹی کا مکمل اِن پٹ شامل ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں سب سے پہلے وزیراعلیٰ سندھ کو بولنے کا موقع دیا جاتا ہے اور وزیراعظم ان کی بات کو سنتے ہیں اور نہ صرف سنتے ہیں بلکہ ہر مثبت چیز کو شامل بھی کیا جاتا ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ اس وبا کا حل لاک ڈاؤن ہے، ایسا ہر گز نہیں لاک ڈاؤن حکمت عملی کا ایک جزو ہے، اس کا حل ویکسین ہے جس کے لیے پوری دنیا کوشش کررہی ہے اور جب تک وہ سامنے نہیں آتی ہمیں اس کی روک تھام کے اقدامات اٹھانے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وبا: سندھ میں ایک روز میں 18 اموات، ملک میں 32 ہزار 674 افراد متاثر

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں کہا گیا کہ وزیراعظم کہاں ہیں تو میں بتادوں کہ وزیراعظم اسلام آباد میں ہیں اور روزانہ صبح سے شام تک صرف کورونا وائرس پر اجلاس کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی افراد ہیں اور سیاسی ضروریات کو سمجھتے ہیں، میٹنگ میں رویے کچھ اور ہوتے ہیں لیکن کیمرے کے سامنے آکر تیور بدل جاتے ہیں ہم ان سیاسی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں کیوں کہ ہم بھی اسی دور سے گزرے ہیں۔

وزیر خارجہ نے پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمان کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں اس لیے پی پی پی چیئرمین اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے بات چیت کے بعد ہم نے ہی اجلاس بلایا اس میں ہمیں کوئی دقت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس بلانے میں تاخیر اس لیے ہوئی کہ اتفاق رائے نہیں ہورہا تھا خود ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اجلاس بلانے کے خلاف تھے اور مسلم (ن) کے نامور سیاستدان کہتے ہیں کہ ہر گز اجلاس نہ بلاؤ تو پہلے اپنی صفوں میں فیصلہ تو کرلیں کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟

شاہ محمود قریشی نے کہا خود ان کی قیادت اس مخمصے میں رہی کہ اجلاس بلایا جائے یا نہیں، ورچوول بلایا جائے فزیکل بلایا جائے اور اس مقصد کے لیے 6 نشستیں ہوئی جس کے بعد کہا گیا کہ ہمارے رولز میں وورچول کی گنجائش نہیں اس لیے فزیکل اجلاس بلایا جائے جس پر ہم نے اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا اجلاس ہوا جمعہ کو بھی ہوگا اپوزیشن کی رائے لیں گے جو کام کی بات ہوئی اسے این سی سی میں لے جا کر اس کی پالیسی تشکیل دے دیں گے۔

متفقہ پالیسی نہ ہونے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ بالکل لغو بات ہے اس کے لیے ہم نے صوبوں اور مرکز کو اکٹھا کیا نیشنل سیکیورٹی کے اداروں کو بٹھایا، اسٹیک ہولڈرز کو یکجا کیا اور قومی سلامتی کمیٹی کا خصوصی اجلاس بلایا جس میں صوبائی نمائندگی نہیں ہوتی لیکن ہم نے تمام وزرائے اعلیٰ کو مدعو کیا اور سب کی تجاویز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 27 مارچ کو این سی او سی مرتب کی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قومی بحران ہے اور اس کے لیے قومی ردِ عمل کی ضرورت ہے اور نہ صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں صورتحال تبدیل ہورہی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ نقطہ چینی کی جاتی ہے کہ سندھ پر یلغار ہوگئی پیپلز پارٹی پر تلوار چل گئی، ہر گز نہیں سندھ ہمارا ہے، سندھ کا دارالحکومت ہمارا ہے آج بھی سندھ کے دارالحکومت میں پی ٹی آئی اور اس کی حلیف جماعت ایم کیو ایم کی اکثریت ہے۔

مزید پڑھیں:ادویات اور متعدد وٹامنز بھارت سے منگوائی گئیں، وزات قومی صحت

انہوں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ کراچی کا آپ کو زیادہ درد ہے اور ہمیں در نہیں ہے ایسا نہیں ہے ہمیں درد ہے کراچی اتنا میرا ہے جتنا آپ کا ہے، آپ سندھ کے ٹھیکیدار مت بنیں یہ پورا پاکستان ہے اور ہم پورے پاکستان کی بات کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی وفاق کی علامت ہوا کرتی تھی آج اس میں صوبائیت کی بو آتی ہے خدارا اس رویے کو بدلیں، راشن کی تقسیم میں اتنی دقت پیش آئی کہ سپریم کورٹ تک میں جواب دہی ہورہی ہے کہ اربوں روپے کا راشن کہاں گیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ لاک ڈاؤن تو کردیا، ڈی ایچ اے میں لاک ڈاؤن، ملیر میں لاک ڈاؤن لیکن اندرونِ سندھ میں کہاں کا لاک ڈاؤن کون سا لاک ڈاؤن اور کس نے دیکھا لاک ڈاؤن۔

انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی اچھی چیزوں ک سراہتے ہیں، مراد علی شاہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں اچھی اقدامات کرتے ہیں تو ہم ان کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ہر گز یہ نہیں کہا کہ لاک ڈاؤن اشرافیہ نے کروایا ان کا کہنا تھا کہ ملک میں 2 طبقے ہیں ایک وہ جو یومیہ اجرت کماتا ہے اور جو اشرافیہ لاک ڈاؤن کی بات کرتی ہے اس کے پاس وسائل ہیں لیکن دوسرے طبقے والے بھوکے مر جائیں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نہیں کہتا ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں توسیع کی جاتی تو ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوجاتے، اگر اس لاک ڈاؤن کو برقرار رکھا جاتا تو 2 کروڑ 10 لاکھ کے بجائے 7 کروڑ 10 لاکھ افراد غربت کی لکیر کے نیچے چلے جاتے۔

سندھ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے تاجروں کے ساتھ مذاکرات کیے، ناکام ہوگئے، کہا آن لائن کاروبار کرتے ہیں وہ پالیسی بھی ناکام ہوگئی جس پر تاجروں نے کہا کہ آپ کھولیں نہ کھولیں ہم پیر کے روز کھول لیں گے جس پر انہیں مجبوراً درست نظر ثانی کرنی پڑی، مساجد میں جانے سے روکا لاٹھیاں برسائیں لیکن لوگ گئے پھر بٹھانا پڑا علمائے کرام کو تو ڈنڈے کے زور پر کچھ نہیں کیا جاسکتا آپ کرسکتے ہیں تو کرلیں۔

'آپ ہوتے کون ہیں یوٹیلیٹی بلز معاف کرنے والے'

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پھر یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ اٹھارویں ترمیم کو دفن کرنے کی بات کی جارہی ہے تو یہ سیاسی ضرورت ہوسکتی ہے لیکن میں واضح طور پر بتادوں کہ اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنا ہماری حکمت عملی یا ہماری سیاست نہیں ہے بلکہ اس کے عمدہ پہلو پہلے بھی قبول تھے اور اب بھی قبول ہیں۔

ان کا کہنا تھا ہماری صرف یہ منشا ہے کہ اس ترمیم کے نفاذ سے اب تک 10 سالوں میں کئی تجربات ہوئے ہیں اس کی روشنی میں مل بیٹھ کر نظر ثانی کرلیں، ہمارے پاس تو 2 تہائی اکثریت ہے نہیں اور آپ کے بغیر ترمیم ہو نہیں پائے گی تو آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ کل بھی میں نے دہائیاں سنی کہ آرڈیننس واپس ہوگیا لیکن سندھ حکومت اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھے کہ وہ آرڈیننس کیا لارہی ہے کیا وہ ان چیزوں پر قانون سازی کرسکتی ہے جو ان کے زمرے میں نہیں آتیں جن پر آپ کا آئینی اختیار نہیں ہے۔

وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ آپ کہتے ہیں یوٹیلیٹی بلز ہم نے معاف کردیے گیس کے بلز ہم نے معاف کردیے آپ ہوتے کون ہیں معاف کرنے والے؟ آئین نے آپ کو اختیار نہیں دیا آپ ایسا کر کیسے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کے باعث پاکستان کو مزید قرضوں کی ضرورت ہے، مشیر خزانہ

انہوں نے بتایا کہ گورنر نے بتایا کہ میں نے قانونی رائے لی ہے آپ اس آرڈیننس کودرست کر کےلے آئیں ہم منظور کرلیں گے لیکن آپ اگر اپنی مرضی اور سیاسی نشوونما کی کوشش کریں گے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ بات کہی جارہی ہے کہ سندھ کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے یہ بالکل غلط ہے بلکہ آبادی کے لحاظ سے سندھ کو زیادہ اشیا فراہم کی گئیں جس کے اعداد و شمار میرے پاس موجود ہیں کیوں کہ سندھ بھی ہمارا ہے اور تیاری کرلو کہ جس طرح پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہم نے اپنا لوہا منوایا سندھ میں بھی ہم آرہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہماری برآمدات میں کی آئی ہے اور اندیشہ ہے کہ زر مبادلہ بھی 20 سے 23 فیصد کم ہوسکتا ہے اس تمام تر صورتحال میں ہم نے 13 کھرب روپے کا پیکج دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پہلے ہی بہت مشکلات کا شکار تھا لیکن اب وہاں کورونا وائرس آگیا جس پر تعاون کا ہاتھ نہیں بڑھایا گیا بلکہ لوگوں کو گھروں میں گھس کر مارا جارہا ہے اور نئی حکمت عملی یہ اپنائی کہ مرنے والے کی لاش نہیں دی جاتی جس پر میں نے او آئی سی اور دیگر عالمی تنظیموں کو خطوط لکھیں گے۔

اپنی تقریر کا اختتام کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ رنگ دینا چاہتے ہیں احساس بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے ایسا نہیں ہے بی آئی ایس پی چھوٹا تھا احساس کو ہم نے توسیع دی ہے، اور جہاں ہم احساس کا کام کررہے ہیں وہاں یہ اپنے بینر لے کر آجاتے ہیں، اسی طرح ہم نے یوٹیلیٹی میں سبسڈی دی ہے جس سے پورا پاکستان مستفید ہورہا ہے۔

علاوہ ازیں وزیراعظم فنڈ میں آنے والی تمام رقوم کو بے روزگاروں کے لیے مختص کیا جارہا ہے، وزیر خارجہ نے کہا کہ میں دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اپنی تجاویز دیں ہم سنیں گے قبول کریں گے، لیکن اگر آپ سیاست کریں گے تو ہم بھی سیاسی زبان میں جواب دیں گے۔

قبل ازیں اجلاس کے آغاز میں انتقال کرنے والے سابق سینیٹرز، ایران سرحد کے قریب حملے میں فرنٹیئر کور کے شہید اہلکاروں اور کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں، ماہرین صحت، سینیٹر فیصل جاوید اور بابر اعوان کی والدہ کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔

حکومت کا رویہ افسوسناک ہے، راجا ظفر الحق

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے راجا ظفر الحق کا کہنا تھا کہ ان سنگین حالات میں حکومت ک بذاتِ خود پارلیمان کا اجلاس بلانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا تو اپوزیشن کو مجبوراً ریکوزیشن کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئینی اداروں بالخصوص پارلیمان سے انہیں مواقعوں کے لیے آرا اور مشورے لیے جاتے ہیں انہیں ان کا کردار دیا جاتا ہے جس پر وہ حکومت کو اپنی تجاویز فراہم کرتے ہیں اس لحاظ سے اس وقت کوشش یہ کرنی چاہیے تھی کہ حکومت ایسا رویہ اختیار کرتی کہ قومی یکجہتی کی فضا پیدا ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا ہو نہ سکا بلکہ اس کے برعکس پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔

حکومت بجائے یہ کہ اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر اس سارے مسئلے کا حل تلاش کرتی انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ رابطہ رکھنا تک گوارا نہیں کیا جو بہت منفی سوچ ہے۔

راجا ظفر الحق نے کہا کہ حکومت کی جانب سے یکساں رویہ اختیار نہیں کیا گیا بلکہ تقسیم کی آوازیں سنائی دی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کے 2، 3 اراکین کو یہ ذمہ داری دے دی جاتی ہے کہ وہ اپوزیشن کے خلاف وہی رویہ اختیار کریں جو عام طور پر انتخابات کے موقع پر سیاسی طور پر کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہے ہیں، بلاول بھٹو

انہوں نے کہا کہ ابتدا سے ہی حکومت کا رویہ منفی، غیر پیداواری اور تفرقہ انگیز رہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے اور ان کو شاباش دی جاتی ہے جو اپوزیشن کے خلاف یہی سب کرتے رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وبا کے دوران کچھ ایسا فلسفہ پروان چڑھایا جارہا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف نفرت پروان چڑھائی جائے خواہ و جنرل اپوزیشن یا وہ ایک صوبہ جہاں ان کی حکومت نہیں وہاں ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جائے۔

راجا ظفر الحق کا کہنا تھا کہ ایسے الزامات لگائے گئے گویا سندھ کی حکومت ملک دشمن ہے اور صرف مرکزی حکومت پاکستان اور اس کے عوام کا خیال رکھ رہی ہے، یہ رویہ قابل مذمت ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے لاک ڈاؤن کے حوالے سے کنفیوژن پیدا کی اور پھر لاک ڈاؤن بھی ہوا حالانکہ ماہرین صحت نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ اس طرح سے وائرس مزید پھیلے گا۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ کے خلاف منفی تاثر دیا جارہا ہے اور ان کو کام کرنے سے روکا جارہا ہے یہ افسوسناک ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

وزیراعظم لاپتا شخص ہیں، شیری رحمٰن

سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا ایسا موقع ہے کہ ہم اس قسم کی مہلک وبا کا سامنا کررہے ہیں اور اس میں صوبوں کو کہہ دیا گیا کہ آپ اپنا اپنا کام کریں۔

ان کے مطابق تاہم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کووِڈ 19 کے خلاف ردِ عمل قومی نوعیت کا ہونا چاہیئے انفرادی نوعیت کا نہیں اور ملک اس وقت تک محفوظ نہیں جب تک سندھ، پنجاب، بلوچستان خیبر پختونخوا محفوظ نہیں۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ تو پھر کیوں پاکستان تحریک انصاف کے جونیئر اراکین روزانہ دوپہر 3 بجے کے قریب نفرت پر مبنی مہم چلاتے ہیں کبھی پنجاب سے کبھی سندھ سے اور روز اخلاقیات کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فیروز سنز لیبارٹریز کے کورونا کی دوا ’ریمڈیسیور‘ بنانے کے لیے مذاکرات

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کی ڈیوٹی لگادی گئی ہے اور وہ جو باتیں کررہے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم اکیلے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں کورونا سے متعلق بات کرنی چاہئیے، عوام کو یکجہتی کا پیغام دینا چاہیئے وہاں روز حکومت کی جانب سے طوفانِ بدتمیزی شروع ہوجاتا ہے لیکن ہم نے اپنے لوگوں کو منع کردیا ہے کہ ان کی زبان میں جواب نہ دیں۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ آج ملک میں سب کچھ کھل چکا ہے تمام مارکیٹس بازاروں میں عید کی خریداری کی جارہی اور لوگ ایس او پیز پر عمل نہیں کررہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدے سے مبہم اور غیر واضح پیغام دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک دن کہا جاتا ہے لاک ڈاؤن ضروری ہے دوسرے دن کہتے ہیں سندھ نے اتنی جلدی کیوں کی اور تیسرے دن کہا جاتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

شیری رحمٰن نے کہ ملک میں مشکل حالات ہیں لوگ تراویح ادا کررہے ہیں کووڈ19 کے مریضوں کے روابط تلاش نہں ہوپارہے نہ ان کی ٹیسٹنگ کی صورتحال بہتر نہیں کورونا وائرس کے حقیقی اعداو شمار بہت مخلتف ہیں اور اس کی وجہ وسائل کی تقسیم نہیں بلکہ ملک میں ایسا پیغام دینا ہے کہ آج یہ سنگین ہے کل نہیں۔

انہوں نے کہا اشرافیہ تو پھر بھی ماسک خرید لے گی ہاتھ دھو لیں گے پانی ختم ہو تو ٹینکر منگالیں گے لیکن جس طبقے کی بات کی جارہی ہے اسے ہسپتالوں کی بستر بھی میسر نہ ہوں تو ہ کیا کریں گے ہم نے کبھی ایسا وقت نہیں دیکھا جو جنگ سے بدتر ہو۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ اس وقت ملک میں 10 ہزار افراد کے 6 بستر دستیاب ہیں، ہمارے پاس آئی سی یو یونٹ ختم ہوجائیں گے تو بتائیں اس صورتحال میں کیا ہوگا۔

مزید پڑھیں: ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والی مارکیٹوں کو سیل کردیا جائے، چیئرمین کراچی تاجر اتحاد

انہوں نے کہ وزیراعظم پاکستان لاپتہ شخص ہیں، ان کی پالیسیز، ان کی جانب سے اتحاد اور ہمدردی کے الفاظ لاپتہ ہیں آج ہم سینیٹرز آئے ہیں سفر کر کے آئے ہیں تو اس صورتحال میں وزیراعظم کہاں ہیں، ملک کون چلا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پارلیمان سے کیوں ڈر رہے ہیں، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس کیوں نہیں ہوا، ہم تنقید نہیں کرنا چاہتے لیکن ہمارے خلاف تنقید کی جارہی ہے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ ہمیں کہا جارہا ہے کہ آپ نے اٹھارویں ترمیم منظور کی ہے اس لیے آپ سب کچھ اپنے بل بوتے پر کریں، آج وفاق نے غلط کیا کل کو ہم سے بھی ہوسکتی ہے لیکن جو غلطی امریکا اٹلی میں ہوئی وہ ہمیں نہیں کرنی ہمیں اپنے لوگوں پر تجربے نہیں کرنے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ زندگی اور روزگار کے مخمصے میں ڈال دیاگیا ہے لیکن روزگار زندگی کے بعد ہے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ صوبے ریاست نہیں ہیں وہ خود مختار ہیں لیکن ریاست نہیں، کوئی اپنے بل بوتے پر کچھ نہیں کرسکتا، ایشیائی ممالک سے سیکھیں۔

رہنما پی پی پی کا کہنا تھا کہ بجٹ آرہا ہے ہماری ترجیحات بدلنی چاہئیں، دوسرے ممالک میں بجٹ میں انسانی تحفظ کو ملحوظ خاطر رکھا جارہا ہے آپ بھی سب کے ساتھ مل بیٹھ کر پالیسی بنائیں، پارلیمانی اجلاس ہوا تو وزیراعظم آئے اور سنا کر چلے گئے، آج ایوانِ بالا کا اجلاس ہے تو وہ کہاں مصروف ہیں وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ایوان غیر متعلقہ ہیں۔

کورونا پر پاکستان جیسی غیرسنجیدگی کسی نے نہیں دکھائی، سینیٹر مشتاق

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے جس طرح کی 'غیرسنجیدگی' دکھائی دے رہی ہے دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت 'اکیلے پرواز' نہیں کرسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتان میں قرنطینہ سینٹر کوئی کیمپ نہیں بلکہ ایک 'گودام' تھا۔

وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے مختلف پیغامات دے کر الجھن پیدا کی۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر کے مطابق 22 مارچ کو وزیراعظم نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی، اسی روز سندھ اور گلگت بلتستان میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا جبکہ بلوچستان اور پنجاب نے مسلح افواج سے مدد طلب کرلی۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے غریب طبقے کے لیے فراہم کی جانے والی مالی امداد پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک خاندان کے لیے 3 ہزار روپے ایک ماہ کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ شرح سود ختم کرے تاکہ لوگ بینکوں سے قرض حاصل کرسکیں۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'ارطغرل شو دکھا کر آپ مدینہ کی ریاست قائم نہیں کرسکتے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں