پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکزی حکومت کے کورونا وائرس کے خلاف اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم اس وبا کے دوران اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرپا رہے ہیں۔

پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے بعد پہلی مرتبہ ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے ڈاکٹروں، پیرامیڈیکس اور نرسز کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ 11 ہیلتھ ورکرز شہید ہوئے ہیں اور اسپیکر اسد قیصر کی صحت یابی کے لیے بھی دعاگو ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے پوری دنیا کے رہنماؤں کی اصلیت سامنے آئی ہے، امریکا کے ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کی بھی اصلیت سامنے آگئی ہے کیونکہ بحران قیادت کا امتحان ہوتے ہیں۔

بلاول نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب جو وزیر صحت بھی ہیں آج بھی اسمبلی میں موجود نہیں ہیں، حالانکہ انہیں اس ایوان اور عوام کو آگاہ کرنا چاہیے تھا جو ان کا فرض ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں اگر آپ لیڈر ہیں تو پھر جو دوسروں سے توقع کرتے ہیں وہ خود بھی کرنا پڑتا ہے، آج بہتر ہوتا کہ وزیراعظم اسمبلی میں موجود ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قومی اتفاق کی توقع تھی لیکن وزیر خارجہ نے صوبہ سندھ اور اٹھارویں ترمیم کو نشانہ بنایا ہے لیکن میں اس پر بات نہیں کروں گا کیونکہ پاکستان میں کورونا وائرس کا کیس آیا تو میں نے کہا تھا کہ مل کر کام کریں گے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس کے جواب میں ہمارے رہنماؤں اور ہمارے وزیر اعلیٰ کو حکومت پاکستان کی اعلیٰ سطح سے گالم گلوچ کا نشانہ بنایا گیا، ان کی محنت اور کوششوں کی کردار کشی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے ایک عہدیدار نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سندھ کے عوام کو جہالت کی وجہ سے کورونا لگ گیا ہے، وقت اس طرح کی سیاست کا نہیں تھا کیونکہ پاکستان کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: آج سندھ کارڈ کی نہیں پاکستان کارڈ کی ضرورت ہے، شاہ محمود قریشی

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ پاکستان میں ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا کریڈٹ صوبائی حکومتوں کو جاتا ہے جنہوں نے خود سے تعداد بڑھائی ہے، وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا کی حکومت کو بھی وہ سہولیات فراہم نہیں کیں جو کرنی چاہیے تھیں۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین این ڈی ایم اے نے خود روزانہ 50 ہزار ٹیسٹ کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن وہ ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاق اور حکومت پاکستان کو ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہونا تھا اور جہاں صوبائی حکومتیں ایک روپیہ خرچ کرتی وہاں وفاق کو دو روپے خرچ کرنا چاہیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم درخواست کرسکتے ہیں کہ آپ پاکستان کی حکومت ہیں آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہم جنگ کی حالت میں ہیں، وزیراعظم کہیں سندھ جا کر خود لڑے اور ہتھیار ہم نہیں دیں گے تو کیا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ کہتے ہیں حفاظتی کٹس موجود ہیں اگر نشتر ہسپتال ملتان میں کٹس وافر تھیں تو پھر پاکستان پیپلزپارٹی کو کٹس کیوں دینا پڑیں۔

دنیا میں طبی عملے کو پیکجز دیے جارہے ہیں اور خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں کیا ہوتا ہے، بلوچستان میں ڈاکٹروں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پنجاب میں ڈاکٹروں کو بھوک ہڑتال کرنی پڑتی ہے۔

وزیرخارجہ کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے جو کہا کہ وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے اور ہم بات کرنے کو تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے بیانات ذمہ دارانہ ہوتے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہے اور اگر کچھ کہتے ہیں تو اس سے ہماری رہنمائی ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے وفاقی حکومت کے سندھ سے منتخب رہنماؤں کے بیانات غیر ذمہ دارانہ ہوتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ مکمل لاک ڈاؤن، اسمارٹ لاک ڈاؤن یا نرمی کرنی ہے تو آپ فیصلہ کریں لیکن ان سب کے اثرات ہیں تاہم جو پہلے لاک ڈاؤن کیا تھا اس سے فائدہ ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی سے خدانخواستہ کیسز اور اموات میں اضافہ ہوگا تو اس کے لیے ہسپتالوں میں بستروں اور دیگر تیاری بھی کرنی ہوگی جس کے لیے وفاقی حکومت کو صوبوں کی مدد کرنا ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سمیت صوبائی حکومتوں نے بہتر اقدامات کرکے پاکستان کو اٹلی، نیویارک اور اسپین نہیں بننے دیا۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ ہماری حکومت نے سوات آپریشن پر یہ نہیں کہا کہ خیبرپختونخوا خود کرے یا سیلاب اور زلزلوں میں کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم صوبوں کی مدد نہیں کرسکتے اور خود کریں بلکہ ہم نے بڑھ چڑھ کر مدد کی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس جنگ میں وفاقی حکومت کہتی ہے صوبے خود لڑیں، صوبے خود لڑیں گے لیکن اس کے جو اثرات ہوں گے اس کو بھی سوچیں، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام کے مسائل ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم سے وفاق کے ساتھ مسائل میں کمی آئی تھی لیکن ایک مرتبہ پھر ان چیزوں کو چھیڑا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جتنے بیانات ہم ایک دوسرے کے خلاف دیتے ہیں اس کو کورونا وائرس کی آگاہی کے لیے دیں تو فائدہ ہوگا۔

'وزیراعظم کنفیوزڈ ہیں'

بلاول بھٹو نے کہا کہ جنگ کا وقت ہے تو ہمارے وزیراعظم موجود نہیں ہیں، وزیراعظم کنفیوزڈ ہیں اور جو ان کی ذمہ داریاں ہیں وہ پوری نہیں کرپارہے ہیں۔

مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا معاشی مشکلات دوسرے ممالک میں نہیں ہیں، بنگلہ دیش، بھارت، نائیجیریا، افریقہ، ایتھوپیا اور افغانستان میں معاشی مشکلات نہیں ہیں صرف پاکستان میں معاشی مشکلات ہیں، اگر وہ ممالک لاک ڈاؤن بھی کرسکتے ہیں، معیشت کوبھی سنبھال سکتے ہیں اور اپنے عوام کو ریلیف بھی دے سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان، افغانستان اور مالدیپ تین ممالک جو کورونا کی وبا کی وجہ سے کساد بازاری کا شکار ہوسکتے ہیں، جہاں یہ حقائق ہیں اس کی تیاری کرنی ہے اور اپنے عوام کا تحفظ کرنا ہے لیکن یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ ایسا کیا ہے کہ پاکستان، افغانستان اور مالدیپ کے ساتھ کساد بازاری میں جانے والا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کورونا سے پہلے ہمارے معاشی حالات بہت خراب تھے، ہمارے غریب اور مزدور اس وقت بھی پریشان تھے اور کورونا وائرس نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج دہاڑی دار طبقے کو، سفید پوش کو وفاقی حکومت نے کچھ نہیں دیا اور اب پابندیوں میں نرمی کررہے ہیں اور جب لاک ڈاؤن تھا تو غریبوں کو ریلیف نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کورونا ریلیف آرڈیننس منظور نہیں کر رہی ہے جو اسی وبا سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے ہے لیکن سندھ میں ریلیف کو پی ٹی آئی سبوتاژ کررہی ہے اور میں مطالبہ کرتا ہوں کہ گورنر سندھ آج ہی اس آرڈیننس کو منظور کریں۔

'ہم وزیراعظم عمران خان کہنے کو تیار ہیں'

انہوں نے کہا کہ جہاں ہم کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں پی ٹی آئی حکومت کام کرنے نہیں دیتی، میں صرف سندھ کی بات نہیں کررہا بلکہ پورے پاکستان کی بات کررہا ہوں،

پی ٹی آئی کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس طرح کی سیاست اور حکومت آپ کرتے ہیں وہ کورونا کے وبا کے موقع پر چھوڑنی ہوگی۔ ہم آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے اورجگہ جگہ جانے کو تیار ہیں، ہم یہ کہنے کو بھی تیار ہیں کہ یہ ہمارا وزیراعظم عمران خان ہے کیونکہ ہم مل کر کر ایک طاقت بن سکتے ہیں۔۔

ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کو اکٹھے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے معاشی معاملات ہوں، کشمیر کا مسئلہ ہو یا اب کورونا کا مسئلہ ہے، ہمارے وزیر اعظم ملک کے وزیر اعظم بننے کو تیار نہیں ہیں اور وہ خوش ہیں کہ میں پی ٹی آئی کا وزیر اعظم ہوں لیکن اس طرح نہ وفاق چلتا ہے، نہ ریاست اور نہ حکومت چل سکتی ہے۔

بلاول نے کہا کہ میرے پاس بات کرنے کے لیے بہت موضوعات ہیں لیکن وبا کے بعد اس پر بات کریں گے، اس وقت مجھے آپ سے لڑنا نہیں ہے، اس وقت آپ کے خلاف کوئی الیکشن نہیں لڑنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ نے تفتان اور تبلیغی جماعت سے متعلق بات کی لیکن ہم کہتے ہیں آپ نے ان کو آگاہی نہیں دی اور ان کو ضروری اشیا نہیں پہنچائیں، آپ کی بدانتظامی کی وجہ سے تبلیغی بھی وائرس سے متاثر ہوئے اور انہیں تکلیف ہوئی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم کورونا وائرس پر مل کر کام کرنے کو تیار ہیں اور جب تک کورونا وائرس ہے اس وقت تک وزیراعظم کو اپنے بیٹنگ آرڈر پر غور کرنا چاہیے، ذمہ دار اور تجربہ کار لوگوں کو سامنے رکھیں جو ہمارے ساتھ بات کرسکتے ہیں اور تمیز سے بات کرسکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں