بعض شعبوں کے علاوہ سب کچھ ایس او پیز کے ساتھ کھول دیا جائے گا، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 01 جون 2020
وزیر اعظم نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں وائرس کے ساتھ ہی کامیابی سے گزارا کرنا ہے— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں وائرس کے ساتھ ہی کامیابی سے گزارا کرنا ہے— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں کم از کم اس سال کورونا وائرس کے ساتھ رہنا ہے اور وائرس کے ساتھ زندگی گزارنا ہوگی لہٰذا کچھ شعبوں کے علاوہ سب کچھ ایس او پیز کے ساتھ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہمیں جیسے ہی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا پتہ چلا اور ابھی ملک میں 26 کیسز ہی آئے تھے کہ ہم نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلایا اور پاکستان میں لاک ڈاؤن لگایا۔

مزید پڑھیں: لاہور کے تمام علاقے غیرمحفوظ، شہر میں 6 لاکھ 70 ہزار سے زائد کورونا کیسز کا اندیشہ

انہوں نے کہا کہ ہم نے لاک ڈاؤن کیا تو اندازہ تھا کہ ہمارے ڈھائی کروڑ لوگ روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے ہیں جو کماتے ہیں تو ان کے گھر کا چولہا جلتا ہے اور ان کے خاندان والوں کا ان ہی پر انحصار تھا، لہٰذا اس طرح یہ تعداد 12 سے 15 کروڑ کے قریب بنتی ہے جو متاثر ہو رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں پہلے سے تھا کہ جس طرح کا لاک ڈاؤن ووہان میں ہوا، اگر میں اس طرح کا لاک ڈاؤن نافذ کروں گا تو ان لوگوں کا کیا بنے گا۔

'پاکستان میں اس طرح کا لاک ڈاؤن نہیں چاہتا تھا'

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں جس طرح کا لاک ڈاؤن ہوا میں اس طرح کا لاک ڈاؤن نہیں چاہتا تھا، ہم نے اجتماعات، تقریبات، کھیلوں، اسکولوں، جامعات سمیت ہر چیز پر پابندی لگا دی تھی لیکن میں کاروبار اور تعمیرات کی صنعت کبھی بند نہیں کرتا، تاہم 18ویں ترمیم کی وجہ سے صوبوں کے پاس اختیارات تھے، صورتحال کی وجہ سے صوبوں پر دباؤ تھا لیکن جس طرح کا لاک ڈاؤن ہوا اس نے ہمارے نچلے طبقے کو بہت تکلیف پہنچائی۔

انہوں نے واضح کیا کہ کورونا وائرس جانے نہیں لگا بلکہ جب تک ویکسین نہیں بنتی، ہمیں اس کے ساتھ ہی رہنا ہو گا، ساری دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے اور امریکا جیسا دنیا کا امیر ترین ملک جہاں ایک لاکھ لوگ مر چکے ہیں، انہوں نے بھی لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وبا: سندھ میں اموات 500 سے متجاوز، ملک میں مجموعی متاثرین 74ہزار 320 ہوگئے

انہوں نے کہا کہ وائرس نے پھیلنا ہے، وائرس پھیلے گا، یہ جو اموات بڑھ رہی ہیں یہ پہلے دن کہہ دیا تھا اور پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وائرس سے اموات بڑھیں گی، لیکن اگر ہم نے اس وائرس کے ساتھ کامیابی سے گزارا کرنا ہے تو یہ ذمے داری عوام کی ہے اور جتنا عوام احتیاط کریں گے، ہم اتنا ہی بہتر طریقے سے اس سے گزارا کر سکیں گے۔

'لوگوں نے عام زندگی گزارنا شروع کردی تو نقصان ہوگا'

ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں نے سمجھا کہ لاک ڈاؤن کھلا ہے اور عام زندگی گزارنی شروع کردی جو لاک ڈاؤن سے پہلے تھی تو ہم اپنا نقصان کریں گے، مثلاً اگر جن علاقوں میں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہو اور ہمیں وہ مخصوص علاقے بند کرنے پڑے تو وہاں کاروبار ختم ہوجائے گا اور لوگوں کو نقصان ہو گا۔

عمران خان نے لوگوں سے درخواست کی کہ وہ حکومت کی جانب سے بتائی جانے والی احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز پر عمل کریں۔

'سیاحت کا شعبہ کھولنا ضروری ہے'

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک فہرست بنائی ہے اور مخصوص شعبوں کے علاوہ سب کچھ ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے کھول دیا جائے گا، اس میں ان شعبوں کا ذکر ہے جن کو ہمیں بند کرنا ہے اور باقی ہم نے کھول دیے ہیں البتہ جہاں خطرہ زیادہ ہے وہ ابھی بھی ہم نے بند رکھے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم سیاحت کھولنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے خیال میں سیاحت کھولنا اس لیے ضروری ہے کہ وہ علاقے صرف تین چار مہینے گرمیوں کے ہوتے ہیں اور ان کا روزگار ہی سیاحت کی وجہ سے ہوتا ہے اور اگر یہ دو تین چار مہینے چلے گئے تو ان علاقوں میں مزید غربت بڑھ جائے گی۔

'ہمیں ذمے دار قوم بننا پڑے گا'

انہوں نے قوم سے ذمے داری لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک ذمے دار قوم بننا پڑے گا، اگر ہمیں لوگوں کو غربت سے بچانا ہے اور ساتھ ساتھ وبا کے پھیلاؤ کو بھی کم کرنا ہے کیونکہ اگر یہ وبا آہستہ آہستہ پھیلے گی تو ہمارے پسپتالوں پر دباؤ نہیں پڑے گا اور اس کا عروج گزر جائے گا اور ہمارا معاشرہ بھی برے اثرات سے بچ جائے گا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں کورونا وائرس انفکیشن ڈیزیز کے دو ہسپتال بنارہے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ

وزیر اعظم نے کہا کہ بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے لوگ احتیاط کر رہے ہیں اور سماجی فاصلہ بھی برقرار رکھ رہے ہیں لیکن عام آدمی کا بالکل مختلف رویہ ہے۔

'یہ سال ہمیں کم از کم اس وائرس کے ساتھ گزارنا ہوگا'

ان کا کہنا تھا کہ ٹائیگر فورس کے 10لاکھ رضاکاروں کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح ہمیں اس وائرس کے ساتھ گزارا کرنا ہے، کن چیزوں پر عمل کرنا اور کیسے ہم پھیلاؤ روک سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پولیس اور انتظامیہ پر بہت بوجھ پڑ چکا ہے اور ٹائیگر فورس ان کی مدد کرے گی جس سے ان کا بوجھ کم ہو گا اور یہ سال ہمیں کم از کم اس وائرس سے گزارہ کرنا پڑے گا، تو اگر ہمیں اس وائرس سے گزارہ کرنا ہے تو احتیاطی تدابیر اپنانا ہوں گی۔

'اپنے طبی عملے کی مشکلات کا احساس ہے'

وزیر اعظم نے طبی عملے کے نام پیغام میں کہا کہ مجھے سب سے زیادہ ان کی فکر تھی، ووہان اور اٹلی کی صورتحال کے بعد ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمارے فرنٹ لائن پر جنہوں نے جہاد کرنا ہے وہ ہمارے ڈاکٹرز اور نرسیں ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں ادراک ہے کہ جب ہم لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کرتے لگتے ہیں تو وہ اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ان پر دباؤ بڑھے گا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر قانون فروغ نسیم ایک مرتبہ پھر اپنے عہدے سے مستعفی

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے طبی عملے کی مشکلات کا احساس ہے اور ہم ہمیشہ سوچتے ہیں کہ اپنے ڈاکٹرز اور نرسوں کی کیسے مدد کر سکتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہماری معیشت پر برا اثر پڑا ہے اور ٹیکس وصولی 30 فیصد کم ہو چکی ہے، ہماری برآمدات گر چکی ہیں، ترسیلات زر کم ہو چکی ہیں اور سرمایہ کاری رک گئی ہے تو اس لیے ایک طرف ملک کے معاشی حالات پہلے سے خراب تھے اور اگر مزید لاک ڈاؤن کیا تو غربت بڑھے گی۔

بیرون ملک پھنسے افراد کو جلد از جلد واپس پاکستان لانے کا اعلان

عمران خان نے کہا کہ ہمارے مزدور اور محنت کش بیرون ملک پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے بھیجے ہوئے پیسوں سے ہمارا ملک چلتا ہے اور ہم ہر اجلاس میں آپ کو واپس لانے کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ باہر سے لوگوں کو لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ابتدائی طورپر ملک میں 80 سے 90 فیصد کیسز باہر کے ممالک سے آئے لیکن اب ہم نے ان کو لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم بیرون ملک سے آنے والوں کا ایک ٹیسٹ کریں گے اور ٹیسٹ کر کے انہیں گھر جانے دیں اور جن کے ٹیسٹ مثبت آئیں گے انہیں کہیں گے کہ گھروں میں قرنطینہ کرو اور اس کی بدولت ہم باہر سے زیادہ لوگوں کو پاکستان لا سکیں گے۔

مزید پڑھیں: چینی اسکینڈل: 'شہزاد اکبر اور وفاقی حکومت ،وزیراعظم کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں'

وزیر اعظم نے قوم کو پھر خبردار کیا کہ اس وائرس نے بڑھنا ہے، مزید لوگ وائرس کا شکار ہوں گے اور اموات بھی بڑھیں گی لہٰذا ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ذیابیطس، بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کے حامل افراد اور بوڑھے لوگوں کی حفاظت ہم سب کی ذمے داری ہے اور ہم ان کی حفاظت ایس او پیز پر عمل کر کے کر سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں